اتوار، 29 جنوری، 2023

पाइरेट्स ऑफ कैरिबियन

 पाइरेट्स ऑफ कैरिबियन


... 


मूवी याद होगी आपको, और जॉनी डेप्प का मशहूर किरदार कैप्टन जैक स्पैरो भी। आप इन पाइरेट्स को क्रिमिनल, लुटेरा और आउटलॉ मानते रहे हैं। 


पर सच्चाइयां अक्सर उलट होती है। 

●●

मैं बकेनियर्स की बात कर रहा हूँ। याने, "सरकारी डाकू" जिन्हें राजा की ओर से, लूट का लाइसेंस मिला होता था। 


ये सोलहवीं सदी का दौर था। समुद्र, तब का नया इंटरनेट था। हाई सीज, व्यापार का हाइवे बन रहे थे। नौकायन, जहाजरानी, नेविगेशन में नई खोजें हो रही थी। 


नई जमीन नए देश,नए जलमार्ग खोजे जा रहे थे। उनसे व्यापार किया जा रहा था। जहाजो में भरा माल, कमाए गए सिक्के, उनमें चप्पू चला रहे गुलाम.. ये सब मिलकर किसी भी व्यापारिक शिप को, "तैरता हुआ बटुआ" बना देते थे। 


तो समुद्र में तैरता बटुआ लूटकर रातोरात अमीर होने के इच्छुक भी थे। 

●●●

लेकिन समुद्री लुटेरा होना आसान न था। हाई स्किल, हाई रिसोर्स, हाई इन्वेस्टमेंट का काम था। इसके ऊपर सबसे बड़ी जरूरत थी, एक देश की, जहां आप लूट की अकूत दौलत खर्च कर पायें। बंगले बनायें, ऐश करें, बाइज्जत आजाद घूम सकें। 


तो पहले तो कुछ जियाले आये, जिन्होंने अपनी छोटे मोटे शिप्स से लूटमार का स्टार्टप खोला था। वे सबको बराबर लूटते रहे। लेकिन जल्द ही उनको, सरकारी संरक्षण का महत्व समझ आ गया। 


तब वे देशभक्त लुटेरे बन गए। याने राजा साहब से लाइसेंस लिया, कि आपके देश के शिप नही लूटेंगे। वे सिर्फ विदेशी शिप लूटेंगे, और लूट में हिस्सेदारी राजा को देंगे। 


राजाओ को बैठे बिठाए नया सोर्स मिला। तो उन्होंने डकैतों को हथियार, आदमी और फंडिंग दी, ताकि डकैत विदेशी राजाओ की नेवी से डटकर लड़ सकें। लाइसेंसी डकैतों के परिवार को इज्जत, सभ्य स्कूलों में दाखिला, सुरक्षा और शरण सुनिश्चित की। 


सोलहवीं सदी में ये सिस्टम तेजी से फैला। ये लाइसेंसी डकैत ही बकेनियर्स कहलाये।

★★★

दरअसल राजाओ के लिए यह बड़ा लयुक्रेटिव सिस्टम था। अपने शिप्स बच जाएंगे, सुरक्षा करवाने पर खर्चा जीरो। उधर दूसरों के लुट जाएंगे, टैक्स मिलेगा खजाने को। 


कुछ राजे तो इतने उत्साहित हुए कि राज्य के खजाने के साथ साथ, निजी धन भी लगाना शुरू कर दिया। इसका मतलब, समुद्र में जो जैक स्पैरो आपको लूट रहा है, उसका हिडन पार्टनर एक राजा है, जो आपकी निगाहों से बहुत दूर, कहीं नर्तकियों का नृत्य देख रहा है। 


या सम्भवतः किसी चुनावी सभा को सम्बोधित कर रहा हो। 

★★★

बकेनियर्स ने जितना दुनिया पर छाप छोड़ी है, वह आपकी कल्पना से अधिक है। क्योकि इन समुद्री लुटेरों में समुद्र पार करके, दूसरे छोर की जमीनों पर कब्जा शुरू किया। 


कोलम्बस, कैप्टन कुक जैसे बकेनियर्स ने राजा से संधि की, की जितने इलाके वे खोजेंगे, लूटेंगे, कब्जा करेंगे.. वहां के गवर्नर वे खुद बनेंगे, लेकिन झंडा राजा साहब का होगा। 


इस तरह कॉलोनियां बननी शुरू हुई। ब्रिटिश, डच, पुर्तगीज, फ्रेंच ने पहले पहल बकेनियर्स के बूते ही कालोनियां सेटअप की। 


ब्रिटिश नेवल टेक्नोलॉजी में आगे थे, उनके यहां पब्लिक कम्पनी बनाने का सिस्टम भी पहले सुदृढ हो गया। तो बकेनियर्स में इन्वेस्टमेंट के लिए जनता की कम्पनियां बनी। ईस्ट इंडिया कम्पनी कह लीजिए। 


तो कम्पनियों और बकेनियर्स के बूते ब्रिटिश साम्राज्य इतना बढ़ गया कि उसके राज में सूरज अस्त नही होता। 

●●●

यह दुनिया के इतिहास का अबोला हिस्सा है। डकैत महान खोजी बना दिये गए। लूट, नशे, गुलामो के व्यापार से पैसे बनाने वाले संसद में भेजे गए। वे सारे के सारे धनवान बने। माननीय बने, गवर्नर बने, लार्ड बने।


अपने दौर की दुनिया के पहले दूसरे तीसरे नम्बर के अमीर बने। 


इतिहास खुद को दोहराता रहता है। कभी त्रासदी, कभी ठिठोली बनकर। चार सदी बाद, भारत के लाइसेंसी लुटेरे भी दुनिया के अमीरों सें कन्धा मिलाने लगे हैं। 


फर्क यह कि उनके बकेनियर्स विदेशियों को लूटते थे और हमारे वाले अपने ही देश को। 

●●●

फिर भी वे माननीय है, रोजगारदाता हैं, देश का गर्व हैं। मैं नही जानता कि इतिहास के इन दोहराव को आप त्रासदी मानते हैं, या ठिठोली।


लेकिन आज के सबसे बड़े बकेनियर्स पर कभी फ़िल्म बने तो उसका नाम बस एक ही हो सकता है


पाइरेट्स ऑफ द इंडियन..


अहमदुल्लाह सइदी आरफी 

بچے کو مـارنــے کــے عــلاوہ کیســے ڈیـل کـر سکتـے ہیں ؟



 *بچــے کـو مـارنــے کــے عــلاوہ کیســے ڈیـل کـر سکتـے ہیــں* 



*"بچوں کو جب آپ مارتے ہیں۔ تو اس کا مطلب پتا کیا ہے۔ اپ میں سمجھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔"*


بچے بات نہ مان رہے ہوں تو ان سے ڈیل کرنے کو ان سب باتوں کو مدنظر رکھئے۔‌


ہر بات پر اندھا دھند عمل کرنے کی بجائے ،عمل کریں اور پھر اس کے اثرات کا جائزہ لیں۔ ہر پہلو پر غور کرکے عمل کو جاری رکھیں یا طریقہ بدل دیں۔ بزرگوں سے مشورہ کریں۔ یہاں سوال کریں۔ اپنے بچے کی فطرت اور حالات کو ذہن میں رکھ کر کسی بھی طریقے پر عمل کریں۔


* بنیادی نقاط*

*انتہائی ضروری باتیں*


1.بچے کی عزت نفس اور احترام کو مدنظر رکھا جائے۔


2.بچے کو پیار محبت کے اظہار کے لیے کچھ اصول اور اوقات متعین ہوں۔یعنی رواج بنائے گئے ہوں کہ اس وقت بچے کو گلے لگانا۔ گال، سر پر بوسہ دینا۔ اور  پیار محبت کے کچھ مخصوص الفاظ میٹھے لہجے میں بولنا۔


2. آپ کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔کل جس کام سے روکا تھا اج بھی اس کام سے روکا جائے یہ نہ ہو کہ کل آپ کا موڈ خراب تھا تو سختی کر دی اور آج موڈ اچھا ہے تو بچے اپنی من مانی کرتے رہیں۔


 3۔بچے کو کسی کام سے روکنے یا مائل کرنے کا مقصد بچے کی تربیت ہونا چاہے ناں کہ اپ کے  کسی وقتی جذبہ کا اظہار۔ (جیسے غصہ اتارنا)۔


4.بچے کے غلط روئیے کو برا سمجھا جائے گا کہ بچے کی ذات کو۔ "بدتمیز بچہ" کہنے کی بجائے "بدتمیز حرکت" یا "بدتمیزی" کہا جائے گا۔ بچے سے نفرت نہیں بلکہ اس کے برے روئیے سے نفرت کا اظہار کیا جائے گا۔ اس کے کسی برے رویے کے باوجود پیار محبت کا اظہار (پوائنٹ 2) مقررہ وقت اور طریقے سے جاری رکھا جائے۔


5.تعریف کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کی عزت نفس کے لیے ان کی ذات کی تعریف 30 فیصد اور اس کی کوشش، محنت ،کام

کرنے کے طریقے کی تعریف 70 فیصد ہونی چاہیے تاکہ بچے کا گروتھ مائنڈ سیٹ بن سکے۔ 


6. گھریلو اصول بنا لیں۔مجموعی طور پر گھریلو اصولوں پر عمل کرنے پر انعام اور غلاف ورزی پر تادیب ،سزا۔ منطقی نتائج کو  بھی طے کرلیں۔


* دو بنیادی قسم کی صورتحال پیش اتی ہیں۔*


‌⁩1.فوری منع کرنا اور روکنا یا عمل کروانا نہایت ضروری ہے۔


مثلا۔بچہ کسی حادثہ کا شکار ہونے لگا ہے۔ تو کم الفاظ سے منع کر دیں یا ہاتھ سے پکڑ کر جگہ سے ہٹا دیں۔


مثلا ۔ بچے کے سکول کا وقت ہے۔ اس جیسے کاموں کے لیے آپ کو وقتا فوقتاً پہلے سے بچے کی ذہن سازی کرنی چاہیے۔

بچے کی عمر اور دلچسپی کے مطابق متعلقہ کام کے فوائد بتا کر دلچسپی پیدا کی جائے۔ جیسے اس کو کہانی سننے پڑھنے کو شوق ہو تو اس کو بتایا جائے کہ سکول جانے سے وہ پڑھنا سیکھ سکے گا۔


‌⁩2.بات کو وقتی طور پر نظر انداز کر سکتے ہیں۔

تو کسی مناسب وقت میں بچے کو پاس بیٹھا کر بچے سے بات چیت کریں۔ اس کے کسی اچھے روئے کی تعریف کریں۔ پھر مناسب رویہ بتائیے۔ پھر اس روئے اختیار کرنے کی وجہ بچے کی عمر اور دلچسپی کے مطابق بتائیے۔ گھریلو اصول طے کر لیں۔ اصول پر عمل کرنے کا طریقہ کار ۔اس اصول پر عمل میں بچے کو مدد دینے کا طریقہ کیا ہوگا۔

مجموعی طور پر گھریلو اصولوں پر

عمل کرنے پر انعام اور غلاف ورزی پر تادیب ،سزا۔ منطقی نتائج کو طے کرلیں۔

?

مارنے یعنی جسمانی تشدد کے علاوہ اپشن۔

(آپ اسمیں اضافہ کر سکتے ہیں۔)

طریقے


1.زبان سے نرمی سے ہدایت دی جائے۔  اسکے لیے بچے کو مخاطب کیا جائے۔متوجہ ہونے پر اس کو پیار کریں۔ جذباتی ہیجان ہونے پر بچے کو پرسکون کرنے کو پیار کریں۔اس کی فیلنگ کا لفظوں سے اظہار کریں۔اسکو سمجھے جانے اور اہم ہونے کا احساس ہو۔ وہ بہتر محسوس کرے گا۔موڈ اچھا ہوگا تو اب وہ بات سننے ماننے کو تیار ہوگا۔

زبانی ہدایت آسان الفاظ اور بچے کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہونی چاہیے۔

پھر کنفرم کیا جائے کہ بچہ بات کو سمجھ گیا ہے۔ بچے سے سوال کئے جائیں ۔جواباتںسے اندازہ ہوگا کہ اس کو سمجھ ا گئی ہے۔


2. چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے اظہار ناراضگی۔ بچے کو گھور کر دیکھنا۔ہاتھ کا اشارہ وغیرہ۔متوجہ کرنا یہاں بھی ضروری ہے۔


3.سخت الفاظ اور لہجے کی سختی۔یہاں بھی بچے کو متوجہ کیا جانا ضروری ہے۔ اور اس کے لیول پر جا کر  پاس بیٹھ کر بات کی جائے۔


4. بچے کی سہولیات کو واپس لے لینا۔ گیم کھیلنے کا وقت کم کر دینا۔ پاکٹ منی نہ دینا۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے ایک بنیادی شرط ہے کہ یہ اصول پہلے سے طے ہوں کہ کس قسم کے برے روئیے کے کیا نتائج ہوں گے۔


5. بچے سے ناراضگی اور نظر انداز کرنا۔ لیکن اب بھی آپ اپنے پیار کا اظہار کرنے کے رواج (اوپر بنیادی پوائنٹ2) کو برقرار رکھیں گے۔


جمعرات، 26 جنوری، 2023

 تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن سچے ہیں۔ 


1--پہلا قانون فطرت:


اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے.

اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔

یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔


2--دوسرا قانون فطرت:


جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔

خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔

غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔

عالم "علم" بانٹتا ہے۔

پرامن انسان "امن و سکون" بانٹتا ہے۔

دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔

خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔

مثبت اور تعمیری انسان موٹیویشن دیتا ہے 

اسی طرح سیاہ دل و متعصب انسان "تعصب و نفرت" بانٹتا ہے


3--تیسرا قانون فطرت: 


آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ


کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔

مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" ریاکاری" بڑھتی ہے۔

بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔

تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔

مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے "دشمنی" بڑھتی ہے۔

غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔

اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں معاشرے میں" ظلم و بے راہ روی" میں اضافہ ہوتا ہے۔


اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک" با مقصد" اور "با اخلاق" زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔۔اللہ پاک ہم سب کواچھی زندگی گزارنےکی توفیق عطا فرمائیں 🤲

احمد اللہ سعیدی عارفی

9935586400


پیر، 16 جنوری، 2023

امام مسجد کی بد دعا کا اثر

 امامِ مسجد کی بد دُعا کا اثر


ہر مسجد میں تین چار ایسے بندے لازمی ہوتے ہیں جو 

امام کے ساتھ مفت کی دشمنی پالتے ہیں


مسجد کا امام ہونا بھی عجیب منصب ہے

کوئی بھی شخص امام پر اعتراض کر سکتا ہے

اور کوئی بھی ڈانٹ ڈپٹ کا حق رکھتا ہے

امام کیسا بھی عالی مرتبہ اور عظیم کردار کا مالک کیوں نہ ہو مقتدیوں کی جلی کٹی باتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو دیکھیےجلیل القدر صحابی ہیں پہلے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں 

اور عشرہ مبشّرہ میں سے ہیں رسول اللّٰہ ﷺ جنہیں اپنا ماموں فرما رہے ہیں

ان کے حق میں قرآن کی آیتیں نازل ہو رہی ہیں واحد ایسے صحابی ہیں جن کے لئے رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے والد اور والدہ کو جمع کرتے ہوئے فرمایا: فِدَاكَ اَبِیْ وَاُمِّی

تجھ پہ میرے ماں اور باپ قربان

جن کے دل میں کسی مسلمان کے لئے بغض وحسد نہ تھا مستجاب الدّعوات تھے

رسول اللّٰہ ﷺ کی معیت میں تمام تر غزوات میں شریک ہوتے ہیں راہِ خُدا کے پہلے تیر انداز ہیں خود رسول اللّٰہ ﷺ آپ کو سالارِ لشکر مقرر فرما کر خرار کی جانب روانہ فرماتے ہیں آپ کے ہاتھ پر بہت سی  فتوحات ہوئیں لیکن جب امارتِ کوفہ کے دوران مصلائے امامت پہ کھڑے ہوتے ہیں

تو کوفہ والوں کے اعتراضات کا محور بن جاتے ہیں 

کوفہ والے حضرت عمر فاروقؓ کو شکایات بھجواتے ہیں اور ان میں ایک شکایت یہ بھی ہوتی ہے کہ سعد بن ابی وقاصؓ نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے

وہ شخص جس نےنماز اللّٰہ کے نبی ﷺ سے سیکھی

اس شخص کی نماز پر دیہاتیوں کا اعتراض......


بالکل آج کل جیسے حالات کا منظر پیش کر رہا ہے آج کے آئمہ نے نماز اگرچہ براہ راست رسول اللّٰہ ﷺ سے نہیں سیکھی مگر رسول اللّٰہ ﷺ کے اقوال سے سیکھی ہے ان علماء کو نشانۂ تنقید بنایا جاتا ہے

بہر حال! جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی شکایت حضرت عمر فاروقؓ تک پہنچتی ہے تو عمر فاروقؓ تحقیقِ احوال کے لیے کوفہ والوں کی طرف محمد بن مسلمہؓ اور عبد اللّٰہ بن ارقمؓ کو بھیجتے ہیں جو ایک ایک مسجد میں جا کرحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں پوچھتے ہیں

حیرت کی بات ہے

 کہ شکایات کوفہ سے چل کر مدینہ پہنچیں

لیکن محمد بن مسلمہؓ اور عبد اللّٰہ بن ارقمؓ جس سے بھی سوال کرتے ہیں تو جواب میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی تعریف ہی سننے کو ملتی ہے ایک ایک مسجد میں جا کر پوچھا لیکن کسی کی طرف سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا البتہ جب پوچھتے پوچھتے سلسلہ بنو عبس کی مسجد تک پہنچا تو صرف ایک شخص "اسامہ بن قتادۃ" نامی اٹھ کر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی شکایت کرتا ھے کہ آپ کی نماز ٹھیک نہیں.

یہ جہاد کے سلسلے میں کوتاھی کرتے ہیں اور فیصلے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیتے.

اعتراض کچھ بھی تھا لیکن یہاں انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ھے کہ شکایات کوفہ سے مدینہ بھیجی گئیں لیکن کوفہ کی کسی مسجد میں ایک شخص کے علاوہ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ملتا یہ حقیقت تاریخ کا حصہ اور لائقِ اعتماد کتب میں موجود ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران صرف ایک ہی ایسا آدمی ملا جسے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ پر اعتراض تھا

لیکن شکایات مدینہ بھجوائی گئیں اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو معزول نہ کیا گیا تو فتنہ وفساد کا اندیشہ ہے اور پھر عمر فاروقؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو معزول کر بھی دیا

اس حقیقت کے پشِ نظر یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ

بعض اوقات صرف ایک دو افراد یا مقتدیوں کو امام سے شکایت ہوتی ہے لیکن ان کا پروپیگنڈہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ "یہ شخص اس منصب کے لائق نہیں"

میں اس مقام پر پروپیگنڈہ کرنے والوں کو دل کے کانوں سے متوجہ ھونے کی دعوت دوں گا اس میں شک نہیں کہ مجھ جیسے ائمہ مساجد لائقِ تعریف نہیں

لیکن میرے بھائیو!

کبھی آپ کی مسجد کا امام بے قصور بھی ہوتا ھے

اور آپ کے اعتراضات بے جا بھی ھوتے ہیں

ایسی حالت میں اپنی "انا" کی تسکین کے بجائے اللّٰہ تعالٰی کی پکڑ سے ڈریے اور ذہن میں رکھیے کہ:

جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نےمعترض کی ناحق باتیں سنی تھیں تو اپنے ہاتھ اللّٰہ جلّ جلالہٗ کے دربار میں اُٹھا کر یہ دعا کی:

اَللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هٰذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهٗ وَأَطِلْ فَقْرَهٗ وَعَرِّضْهٗ بِالْفِتَنِ

اے اللّٰہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور نام ونمود کی خواہش میں اٹھا ہے تو اس کی عمر کو لمبا کر اس کی محتاجی میں اضافہ کر اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔

وقت گزر گیا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ معزول بھی ہو گئے پروپیگنڈہ جیت گیا

لیکن سعد بن ابی وقاصؓ کی دُعا اللّٰہ جلّ جلالہٗ کے ہاں محفوظ رہی اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ وہ شخص انتہائی بڑھاپے کو پہنچا اس کی بھنویں آنکھوں پر گر چکی تھیں راستے میں کھڑے ہو کر بھیک مانگتا اور جب کوئی عورت سامنے سے گزرتی تو اس کے ساتھ چھیڑخانی کرتا۔

لوگ کہتے: اے بوڑھے! تمہیں عورتوں کو چھیڑتے ہوئے حیاء نہیں آتی؟

جواب میں کہتا: میں کیا کروں؟ مجھ بڈھے کو سعد بن ابی وقاصؓ کی بد دعا لگ گئی ہے

(صحيح البخاري كتاب الأذان باب وجوب القراءة للإمام والمأموم : 755)


آج کے دور کا کوئی امام حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسا تو نہیں لیکن کسی بھی مسلمان پر ناحق اعتراضات کرتے وقت اللّٰہ تعالٰی کی پکڑ کو بھول جانا انتہائی بد نصیبی کی علامت ہے

ہم اپنے پروپیگنڈہ میں جیت سکتے ہیں

لیکن اللّٰہ جلّ جلالہٗ کے ہاں فیصلے حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں ان فیصلوں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔

اللّٰہ تعالٰی ہمیں مسجدوں کے نظام میں بہتری لانے کی توفیق بخشے اور مسجد کے امام، خطیب اور انتظامیہ میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری سمجھنے اور اسے حتٰی المقدور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین 

احمد اللہ سعیدی عارفی 





ہیج ہاگ (سیہی)

 ‏ہیج ہاگ (اردو میں سیہی) ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے ہیں 

ان کے گرد کانٹے ان کے لیے ایک ناقابل تسخیر قلعے کا کام کرتے ہیں 

نہ صرف ان کے دشمنوں سے بلکہ ان کے اپنے لوگوں سے بھی دوری کا سبب بنتے ہیں!


 جب سردی اپنی مسلسل سرد ہواؤں  کے ساتھ آتی ہے ‏تو ہیج ہاگ گرمی کی تلاش میں ایک دوسرے کے قریب آنے اور چپکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

 اور کانٹوں کی تپش اور چبھن کا درد برداشت کرتے ہیں!


 مگر مسلسل ساتھ چپکنا ان کے بہت سے زخموں کا سبب بن سکتا ہے

 اور مستقل دوری ان کی جان لے سکتی ہے! ‏مگر یہ بہر صورت قریب رہ کر زخم کھا کر زندہ رہنے کو مرنے پر ترجیح دیتے ہیں!

 ہمارے انسانی رشتوں کا بھی یہی حال ہے!


 ہم میں سے کوئی اپنے اور دوسروں کے کانٹوں سے خالی نہیں ہے 

 لیکن ہمیں گرمی نہیں ملے گی جب تک ہم کانٹوں کی چبھن اور درد نہ سہ سکیں! ‏ورنہ سردی کی شدت سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھں گے!

 تو ہمیشہ یاد رکھیں!

 ✅ جو بغیر عیب کے دوست ڈھونڈتا ہے وہ تنہا رہتا ہے!

 ✅ اور جو بغیر کمی کے بیوی چاہتا ہے وہ بغیر بیوی کے رہتا ھے!

 ✅ اور جو عورت بے  عیب شوہر چاہے گی  تو وہ اکیلی رہے گی یا طلاق یافتہ رہے گی! ‏✅ جو بغیر کسی عیب  کے بھائی کی تلاش میں رہتا ہے وہ ہمیشہ  تلاش میں ہی رہے گا

 ✅ اور جو کوئی کامل رشتہ دار چاہے گا وہ رشتہ داری سے خالی رہے گا!‏اپنی زندگیوں میں توازن برقرار کرنے کے لیے دوسروں کے زخموں کو برداشت کریں!

 خوشی سے جینا چاہتے ہیں تو

 ہر چیز کی وضاحت نہ مانگیں, ہر چیز کی جانچ نہ کریں, اور ہر چیز کا تجزیہ نہ کریں,

 جو لوگ ہیروں کا تجزیہ کرتے ہیں انہیں کوئلہ ہی نصیب ہوتا ھے!‏رشتوں کو عیب کے ساتھ قبول کریں اور عیب کیساتھ ہی نبھانا سیکھیں!

بے عیب ذات اللہ سبحانہ وتعالی کی ہے اور اسکی عطاء سے انبیاء کرام علیہم السلام کی ذاتیں بے عیب ہیں!

آپ غور کریں کہ اگر کوئی آپ کو کانٹے چبھو رہا ہے تو سردی سے بچا بھی تو رہا ھے!

احمد اللہ سعیدی عارفی 


پیر، 9 جنوری، 2023

-:رحمت کے بغیر میں نعمت کا مزا نہیں ہیں:-

 *رحمت کے بغیر نعمت کا مزہ نہیں*



بیٹی کو منحوس اور نامبارک سمجھی جانے والی زمانۂ جاہلیت کی یہ قبیح اور بری رسم آج ہم مسلمانوں میں در آئی ہے، آج مسلمانوں کی اکثریت بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتے،اُس کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے، اور اُس کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔

بابا بیٹیوں کی جان ہوتے ہیں اور بیٹیاں بابا کی جان،بیٹیاں کیا ہوتی ہیں کاش آج کل کے مطلبی خود غرض اور لالچی باپ سمجھ سکتے،وہ یہ سمجھ سکتے کہ بیٹیوں کی پیدائش باعث رحمت ہے زحمت نہیں،وہ یہ جان لیتے کہ شریعت نے بیٹیوں کی کیا اہمیت بیان کی ہے،انہیں پتہ ہوتا کہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر کیا انعام رکھا ہے۔تو وہ اپنی جنت کو یوں برباد نہ کرتے انہیں ذلت کا سامان نہ سمجھتے ان کی پیدائش پر مایوس نہ ہوتے،

بیٹیاں تو چاند ہوتی ہیں۔اپنی ماں کی مددگار تو والد کی خدمت گزار ہوتی ہیں،

جب باپ صبح سے محنت و مزدوری کے لیئے نکلا ہوا سخت گرمی والی دھوپ میں واپس آئے تو یہ بیٹیاں ہی ہوتی ہیں جو اپنے باپ کو ٹھنڈا پانی پیش کرتی ہیں بجلی نہ ہونے کی صورت میں گھنٹوں اپنے ہاتھوں سے پنکھے چلاتی ہیں اور اپنے باپ کو سکون پہنچاتی ہے، سر سے لے کر پاؤں تک کو دباتی ہیں اور باپ کی تھکاوٹ کو چند منٹوں میں غائب کر دیتی ہیں۔بیٹیاں تو سخت دھوپ میں چھاؤں کے مانند ہوتی ہیں۔ ہمارے علاقے (سیمانچل)میں جب والدین کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور اور بیٹے والدین کو دانہ پانی پہنچانے سے گریز کرتے ہیں تو یہ بیٹیاں ہی ہیں جو والدین تک کھانے پینے کے سامنے پہنچاتی ہیں

جب یہی بیٹیاں والدین کے گھروں سے رخصت ہوکر سسرال چلی جاتی ہیں تو ان سے محبت کرنے والے والدین راتوں کو چھتوں پر بیٹھ کر چاند کو دیکھتے لاڈلی بیٹیوں کی باتیں یاد کر کر کے آنکھیں نم کرتے ہیں۔ 

ایسے باپ جو اپنی بیٹیوں سے محبت نہیں کرتے ان کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں بیٹی کی پیدائش کی وجہ سے بیوی پر ظلم وتشدد کرتے ہیں وہ ابوجہل کے نقشِ قدم پر چلنے والے دنیا کے ظالم انسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے اس گھٹیا اور گھناؤنے حرکت کا انجام بھی سوچ لینا چاہئے۔۔ 

‌اور ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہیں اپنے بیٹوں پر بڑا ناز ہوتا ہے جب وہی بیٹے جوان ہونے کے بعد ان کے سروں پر جوتے مارتے ہیں انہیں گھروں سے بے گھر کردیتے ہیں تب اس وقت بھی یہ معصوم بیٹیاں ہی ان کے کام آتی ہیں،یہ معصوم کلیاں ہی ان کا سہارا بنتی ہے ،اکثر و بیشتر مشاہدہ میں آتا ہے کہ بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیاں ماں باپ کی خدمت زیادہ کرتی ہیں، اُن کی اطاعت وفرماں برداری میں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں

اگر آپ بیٹوں کو نعمت سمجھتے ہیں تو بیٹیاں رب العالمین کی طرف سے رحمت ہے اور رحمت کے بغیر نعمت کا مزہ نہیں،

 میرے بھائیوں خدارا بیٹی کو اتنا کمتر مت سمجھو کہ بیٹی کی پیدائش کا سن کر اسپتالوں سے بھاگ جاؤ غصے میں لال پیلے ہو جاؤ بیوی سے ناراض ہوجاؤ اس سے بات چیت بند کردو ان کا خرچہ روک دو۔کاش تم بیٹی کے مقام و مرتبہ جان سکتے۔😥🤔


اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم و صحیح سمجھ عطا فرمائے اور بیٹوں کی طرح بیٹیوں سے بھی محبت کرنے والا بنائے بیٹی کی پیدائش پر بھی ویسی ہی خوشیاں ہمارے چہروں پر ہو جیسے بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے آمین یا رب العالمین۔ ۔۔

احمد اللہ سعیدی عارفی

9935586400



جمعرات، 5 جنوری، 2023

مشکل وقت

 


🌀 *مشکل وقت* 🌀



 اچھا بُرا وقت سب کی زندگی میں آتا ہے۔۔۔کسی کے مشکل وقت میں ججمینٹل نہ بنیں۔۔کون کس طرح کے حالات سے گزر کر آیا ہے یا گزر رہا ہے آپ کو نہیں پتا۔۔جو کچھ بھی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اُس کے پیچھے کیا وجہ تھی یا کیا کہانی تھی وہ آپ کو نہیں پتا_


 اُس ایک لمحہ میں کچھ سُن کر یا دیکھ کر اپنی راۓ یا اپنا حتمی فیصلہ سُنانے سے گریز کریں۔۔میں نے دیکھا ہے لوگوں کو ۔۔۔۔کسی کا کوئی تعلق خراب ہو گیا ہے،گھر کا کوئی مسئلہ ہے،جاب کا مسئلہ ہے،کوئی بیمار ہو گیا ہے،پیسوں کا مسئلہ ہے،کوئی بڑا فیلیر آگیا ہے،نیز کوئی بھی پریشانی یا کسی بھی طرح کا کوئی مسئلہ ہے۔۔۔تو دوسرے لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنی ناقص راۓ کی بنا پر اُس انسان کے لیے غلط الفاظ کا نہ صرف چناٶ کرتے ہیں بلکہ اُس غلط بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے بہترین ذریعہ بھی بنتے ہیں۔۔کسی کا مشکل وقت ،اُس کی آزمائش بھی ہو سکتا ہے۔جو کچھ ان کی زندگی میں چل رہا ہے اس کے بدلے اللہ اُن کو بہت بہترین سے نوازتا ہے۔مشکل وقت کے پیچھے بہت بڑی مصلحت ہوتی ہے جو اُس وقت نہیں بلکہ بعد میں سمجھ آتی ہے کہ وہ وقت کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔آزمائش اُس وقت آپ کی بھی ہو سکتی ہے اللہ تعالی دوسروں کو دِکھانا چاہتا ہے کہ کس بندے میں کتنا ظرف ہے۔


کسی کا گزرا ہوا وقت آپ کا آنے والا وقت بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ لہذاججمینٹل نہیں بنا کریں، آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آزمائش صرف نیک بندوں کے لیے ہوتی ہے ۔رسی دراز ان لوگوں کی ہی ہوتی ہے جن کو وہ ہدایت نہیں دینا چاہتا ، ان کے لیے صرف دنیا ہی کی زندگی ہے ایسے لوگ عارضی دنیا کو داٸمی سمجھ کر دوسروں کی زندگیاں جہنم بنانا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔


احمد اللہ سعیدی عارفی

فاضل جامعہ عارفیہ

                                                             9935586400

بدھ، 4 جنوری، 2023

خلیل اللہ کیسے بنا جاۓ؟

 *خلیل اللہ کیسے بنا جائے؟*

آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ خلیل اللہ      (اللہ کا دوست) کیسے بنا جاتا ہے۔ ہم اپنے مقصد پر نظر رکھ کر فضولیات سے بچ کر ہی اللہ کو دوست بنا سکتے ہیں۔


           آپ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو جانتے ہی ہوں گے۔ اللہ نے ان کو اپنا دوست منتخب کیا۔ قرآن کریم میں ان کیلئے *"حَنِیْفًا"* مطلب *"یکسو"* ہونے کی صفت بیان کی گئی ہے۔

   

   اگر آج ہم بھی اللہ کی طرف جاتے راستے پر یکسو ہوں گے، فضولیات سے بچیں گے تو ہم بھی اللہ کے دوست بن جائیں گے۔ کیونکہ پہلے بھی وہی رب تھا اور آج بھی وہی رب ہے۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا ۔

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا ۔

مومن تو ویسے بھی اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں۔


       *وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا  لِّلّٰہِ ؕ* 

"اور ایمان والے تو اللہ کی ہی محبت میں شدید ہوتے ہیں۔"

      *(سورة البقرة: ١٦٥)*

      تو اپنے آپ کو یکسو کر کے اللہ کی طرف جاتے راستے کو حسین بنائیں۔ دوسروں کی زندگی سے نکل کر اللہ کو اپنی حیات بنائیں۔ دوسروں کے سٹیٹس دیکھنے کے بجائے اللہ کی نظر میں اپنا سٹیٹس دیکھیں۔

  

      *"اَلَّلھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَالُكَ حُبَّكَ"* 

اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں۔

     *(جامع الترمذی:3490)*

احمد اللہ سعیدی عارفی-:

9935586400


اتوار، 1 جنوری، 2023

 🤝 *آپس کے معاملات سدھارنے کے لیے کتنی زبردست ہیں قران حكيم كى یہ نو باتیں ، کاش ہم اسے اپنے عمل میں لائیں.* 

*1 -  فتبينوا :* 


کوئی بھی بات سن کر  پھیلانے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو. کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کو انجانے میں نقصان پہنچ جائے. 

*2 -  فأصلحوا :* 

دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں. 

*3 - وأقسطوا :* 

ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے. 

*4  - لا يسخر :* 

کسی کا مذاق مت اڑاؤ ..  ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو 

*5  - ولا تلمزوا :* 

کسی کو بے عزّت مت کرو 

*6 - ولا تنابزوا :* 

لوگوں کو برے القابات (الٹے ناموں) سے مت پکارو 

*7 -  اجتنبوا كثيرا من الظن :* 

برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں. 

*8  -  ولا تجسَّسُوا :* 

ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو 

*9 -  ولا يغتب بعضكم بعضا :* 

تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے. 

*(سورہ الحجرات)*

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...