خوشی منانے کا علاقائی انداز اور اس کی شرعی حیثیت
دنیا بھر میں خوشی منانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر قوم، ہر علاقے اور ہر تہذیب کے لوگ اپنے اپنے مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوستان جیسے کثیرالثقافتی ملک میں بھی ہر خطے کی اپنی روایات، رسمیں اور خوشی منانے کے انداز پائے جاتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں بھی خوشی کے مواقع پر اظہارِ مسرت کا ایک خاص اور منفرد طریقہ رائج ہے، جو اب گویا ایک ثقافتی روایت بن چکا ہے۔
ہمارے یہاں عام طور پر جب شادی بیاہ کی تقریبات ہوتی ہیں، یا کسی گھر کی بنیاد ڈالی جاتی ہے، یا کسی تعمیری یا نیک کام کی ابتدا کی جاتی ہے، تو اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ خوشی کا اظہار ایک دوسرے پر رنگ ڈال کر کرتے ہیں۔ یہ رنگ برنگی خوشیاں صرف ایک دن یا ایک خاص موقع تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ جب بھی کوئی موقع مسرت آتا ہے، لوگ اپنے جذبات کا اظہار اسی طریقے سے کرتے ہیں۔ یہ ایک ثقافتی اور علاقائی شعار بن چکا ہے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہوتے ہیں، اور اس کا مذہبی رنگ (جیسا کہ "ہولی") سے کوئی تعلق نہیں۔
گزشتہ دن ہمارے گاؤں کے محترم استاد، ماسٹر جاوید صاحب کے یہاں مکان کی بنیاد ڈالی گئی۔ انہوں نے مجھے اور دیگر اہلِ محلہ کو دعوت دی۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ان کے اہلِ خانہ ایک دوسرے کو رنگ لگا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ ماسٹر صاحب کی والدہ نے مجھ سے بھی پوچھا کہ کیا وہ مجھے رنگ لگا دیں، مگر میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی۔
اسی موقع پر ہمارے گاؤں کے امام محترم، مولانا نذر الاسلام صاحب نے اس رواج پر سوال اٹھایا اور فرمایا: "کیا یہ طریقہ ہولی سے مشابہ نہیں؟" ان کی بات سن کر میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ ہمارے علاقے میں یہ ہولی کی نقل نہیں بلکہ ایک علاقائی طریقہ ہے جو کسی مخصوص مذہب کی رسم نہیں بلکہ ایک ثقافتی اظہارِ خوشی ہے، جو شادی، تعمیر یا کسی بھی مثبت عمل کے آغاز پر اپنایا جاتا ہے۔ ہولی ایک خاص دن اور مذہبی پس منظر کے ساتھ منائی جاتی ہے، جب کہ یہاں کے لوگ بلا کسی مذہبی نیت کے، محض خوشی کے جذبے سے، رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔
بعض افراد ہر نئی چیز کو بدعت یا گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں، اور ان کا زاویہ نظر زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمیں توازن اور فہم و بصیرت کے ساتھ کام لینا چاہیے۔ دین کی دعوت دینے والے افراد کا کام لوگوں کو قریب لانا ہونا چاہیے نہ کہ دین سے دور کرنا۔ اگر کوئی چیز نہ شرعی حکم کی مخالفت کرتی ہے اور نہ ہی کسی کفر یا شرک پر مبنی ہے، تو محض شبہ کی بنیاد پر اس کی مخالفت کرنا مناسب نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم دینی اعتدال، حکمت اور نرمی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی کریں، تاکہ وہ دین سے قریب ہوں، نہ کہ بدظن ہو کر دور جائیں۔ دین میں جہاں شریعت کے اصول اہم ہیں، وہیں لوگوں کی طبیعت، تہذیب اور عرف کا لحاظ بھی سنتِ نبوی ﷺ کا حصہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں