ہمارے گاؤں میں ایک جدید ہسپتال کی ضرورت — ایک اجتماعی فلاحی خواب
( تحریر:- محمد احمد رضا چشتی اشرفی رکن آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ یونٹ سملیا)
اللہ رب العزت کا بے پایاں شکر و احسان ہے کہ ہمارے گاؤں سملیا میں متعدد افراد ایسے ہیں جو مخیرین کی حیثیت سے ہمیشہ سماجی و فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح کئی حضرات وہ بھی ہیں جو دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کے لیے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن اور مثبت پہلو بھی ہے۔
اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نگاہ دوڑائیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یورپ و امریکہ کے بیشتر گاؤں جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ ہر گاؤں میں کھانے پینے کے لیے وسیع و عریض ریسٹورنٹ، علاج معالجے کے لیے جدید ہسپتال، شادی بیاہ کے لیے میرج ہال، تعلیم کے لیے معیاری کالج، اور کھیل و تفریح کے لیے اسٹیڈیم یا کھیل کے میدان موجود ہوتے ہیں۔ ان سہولیات کی دستیابی نے وہاں کے دیہی علاقوں کو بھی شہری ترقی کا ہم پلہ بنا دیا ہے۔
یہ منظرنامہ اگرچہ ہمارے گاؤں یا خطے کے دیہی علاقوں کے لیے بظاہر ایک خواب سا لگتا ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلسل کوشش، عزم اور اخلاص کے ساتھ اگر کوئی قوم کسی خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس میں کامیابی عطا فرماتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے گاؤں دیہات کو اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہوگا، شاید کئی دہائیاں درکار ہوں۔
اس کے باوجود، امید کی کرنیں موجود ہیں۔ ہندوستان میں کئی دیہی علاقے، خصوصاً تمل ناڈو اور کیرالا جیسے ریاستوں کے گاؤں، ایسے ہیں جہاں آج بھی جدید طبی سہولیات میسر ہیں۔ وہاں ایسے ہسپتال قائم ہیں جہاں ہر طرح کے علاج حتیٰ کہ پیچیدہ آپریشن بھی بآسانی ممکن ہیں، اور مقامی لوگوں کو بڑے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔
اسی طرز پر اگر ہم اپنے گاؤں سملیا میں دستیاب مقامی وسائل، ڈاکٹروں، اور سماجی شخصیات کے تعاون سے ایک معیاری ہسپتال قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، تو یہ ایک انقلابی قدم ہوگا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پورنیہ یا کشن گنج جیسے شہروں تک لے جانے میں تاخیر کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کبھی یہ تاخیر مالی تنگی کی وجہ سے، تو کبھی غفلت اور لاپروائی کے سبب ہوتی ہے۔
لہٰذا آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ گاؤں میں ایک ایسا ہسپتال قائم کیا جائے جہاں کم از کم بنیادی طبی سہولیات، زچگی (ڈلیوری)، اور ابتدائی نوعیت کے آپریشنز ممکن ہو سکیں۔ اگر ہم اس ہدف میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقیناً سملیا ایک مثالی گاؤں بن کر ابھرے گا اور ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔
ہم اپنے گاؤں کے تمام اکابرین، اہل خیر، صاحبِ ثروت اور باشعور افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر بنانے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں۔ اگر وہ اس کارِ خیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف موجودہ نسل کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہوگا بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں گی۔ اور قیامت تک ان کے اس عمل کی گونج گاؤں کے گلی کوچوں میں سنائی دیتی رہے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں