جمعہ، 31 جولائی، 2020

دوستوں .......!اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے کرہ ارض پر بنی نوع انسان کی جو صورت حال ہے وہ ہرکس و ناکس پر روز روشن کی مانند عیاں ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ مستقبل میں ہمیں مولوی اور دینی مدارس چاہیے یا سائنسدان اور لیبارٹریز؟ مولوی حضرات ہمارے سالہا سال کی انویسٹمینٹ کھا کر غائب رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مذہب کا بھید بھی کھل چکا ہے کہ یہ محض انسانی فہم اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ ہم میں سے بے شمار حضرات ایسے کہ ہیں کہ اگر وہ اس دارفانی سے رخصت ہو جائیں تو ہم ان کے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لگاتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ حدیث پاک " الخلق كلهم عيال الله" کے تیٔین اگر دیکھیں تو بنی نوع انسان کیلئے جو سائنسدان اپنی زندگی کی آخری سانس تک لیبارٹریز میں محاذ سنبھالے رہتے ہیں یا جو سائنسدان آج کورونا وائرس کی ویکسین کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں یا جن سائنسدانوں نے اس جیسی متعدد بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے ان میں سے کسی کو بھی ہم رحمۃ اللہ علیہ یا ان جیسے کسی محترم کلمات سے یاد نہیں کرتے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہی سائنسدان لیباریٹریز میں رہ کر کوئی نہ کوئی ویکسین دریافت کریں گے جو ہم میں سے ہر کسی کو, خواہ وہ کوئی سرمایہ دار ہو ، بہت بڑا تاجر ہو یا کوئی مزدور , یہ سائنسدان ہی ان کو یقین دلائیں گے کہ اب وہ اس مہاماری سے محفوظ ہیں ۔ اس ویکسین کے استعمال کے بعد ہم ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچیں گے کہ اب ہمیں کس پر انویسٹمنٹ کرنا ہے, مولوی اور مدارس پر یا سائنسدان اور لیباریٹریز پر۔ دوستوں یہ ہے مذہب بیزار سوچ رکھنے والوں کا موجودہ نعرہ۔ میرا خیال یہ ہے کہ بات کی ہزار چوٹوں سے وقت پر لگائی گئی ایک چوٹ بہت کچھ تبدیلیاں لاتی ہے۔ بے شمار انقلابی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے ۔ملحدین نے موجودہ صورتحال میں مولوی اور مدارس کے خلاف جو محاذ آرائی کی ہے وہ بہت ہی خطرناک طریقے سے ایک نشانے پر بیٹھ رہی ہے۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی ہمیں مذہبی درس گاہیں بند کر دینی چاہیے ؟ کیا ہمیں مذہب اور اس کے مبلغین کی تمام فنڈوں پر قدغن لگا دینی چاہیے؟ اور مستقبل کے لیے سائنسدان اور لیباریٹریز کا اہتمام کرنا چاہیے؟ آج ہم مذہب بیزار کمیونٹی کے اس اہم پروپیگنڈے کا انکاؤنٹر کریں گے جن کے ہزار سوالوں کے پیچھے ایک ہی سوال چھپا ہے کہ مذہب ہماری زندگی کیلئے، ہمارے لئے ضروری کیوں ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! دنیا کے ۸/ ارب باشندوں میں سے جتنے افراد ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں،ان تمام میں سے ۸۰/ فیصد لوگ شوٹنگ گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ ہم گیمز میں لوگوں کو گاڑی کے نیچے کچلنا اور انہیں نت نئے طریقے سے مارنا بہت پسند کرتے ہیں ۔ کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم اس طرح کے گیمز کھیلنا کیوں پسند کرتے ہیں؟ اور گیمز میں ہمیں لوگوں کو مارنے کی ترغیب کیوں دی جاتی ہے؟ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب کسی فرد کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے تو وہ لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ کیوں؟دوستو اسی پوائنٹ کے اندر اس سوال کا جواب ہےکہ مولوی یا سائنٹسٹ ؟ مذہب یا لیبارٹریز؟ ہمارے پاس کیا ہونا چاہئے؟ Human intelligence, moral existence and animal existence دوستو یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن کی تکمیل سے کوئی انسانی وجود قائم ہوتا ہے۔ انسانی ذہانت ایک ایسی توانائی ہے جو انسان کو دوسروں سے سے ممتاز کرتی ہے ہے جس کے ذریعے انسان سوالوں کی دنیا میں اپنی منزل تلاش کرتا ہے اور مضبوط فیصلے کرتا ہے ۔دوسرے نمبر پر ہے moral existence یعنی اخلاقی وجود جو انسان کے رویے کو ترتیب دیتا ہے جو اسے فورس کرتا ہے ہے کہ اس کی ایجاد ،‏تھیوری یا تحقیق غلط مقاصد کے لئے استعمال نہ ہوں۔یہ اخلاقی وجود ہر لمحہ انسان کے اندر تمام تر ذمہ داریوں کے احساس کو برقرار رکھتا ہے عموما کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جب ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو تکلیف دیں، انہیں نقصان پہنچائیں۔ بعض حضرات تو اپنی حیثیت کے مدنظر ان خواہشات کو پوری بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کا اخلاقی ‌وجود اسے ان حرکتوں سے باز رکھتا ہے۔ تیسرے نمبر پر ہے انیمل ایگزسٹینس یعنی ہمارا ظاہری وجود جو کہ فلسفے کے اعتبار سے ایک حیوانی وجود کہلاتا ہے اب یہ جو ہمارا ظاہری وجود ہے اس کے تقاضے اور اس کی خواہشات انتہائی خطرناک درجے کے ہیں دنیا کا کوئی بھی فرد وہ چا ہے وقت کا شریف ترین انسان ہی کیوں نہ ہو وہ دوسروں کو اپنے سامنے زیر دیکھنا پسند کرتا ہے , (الا ما شاء ....)وہ دوسرے انسان کو اپنے آ گے بے بس،لاچار اور ہاتھ پھیلاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔یعنی پاور کا حصول چاہتا ہے. خواہشات کی تکمیل انسانی وجود کا سب سے بڑا ڈیمانڈ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 70 فیصد لوگ شوٹنگ گیمز اور کلینک گیمز کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ وہ لا شعوری طور پر اپنی حیوانی وجود کی خواہش کا تکملہ کرتے ہیں۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! انسان کا ظاہری اسٹرکچر انتہائی خطرناک ترین ہوسکتا ہے اگر اس کو بلا ضرورت صرف تسکین کے لئے اس سیارے پر استعمال کیا جائے۔قدرت نے اس خطرناک ترین اسٹریچر کو قابو میں رکھنے کے لیے انسان کو ہیومن انٹیلیجنس اور مورل ایگزسٹینس یعنی عقل اور اخلاقی احساس جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔جس کے ذریعے علم و فن کا بہت سارا کام لیا جانا چاہیے۔اس کے ذریعے اتنا کام لیا جائے کہ انسان کو اپنی ضروریات سے فرصت ہی نہ ملے ۔ دوستو۔۔۔۔۔۔! انسانی وجود کے اندر عقل اور اخلاقی احساس کی تعریف معاشرے کے ماحول کے مطابق پروان چڑھتی ہے مثلا ہلاکو خان اپنوں کے لئے تو بہت بہترین فیصلہ ساز اور ہمدرد رہا ہوگا لیکن دوسرے انسانوں کے لیے وہ بہت ہی خطرناک ثابت ہوا۔یعنی اس خطرناک انسانی اسٹرکچر کے اندر عقل اور اخلاقی وجود کو بھی ایک پیمانہ اور ایک ٹریننگ دینے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس ظاہری وجود کی ہلاکت خیزی کو مزید پھیلنے سے روک سکے ۔یہ خطرناک اسٹرکچر چاہتے ہوئے بھی خود کو دبا دے اور صرف وہی کرے جو اس کے ذاتی وجود اور اس سیارے کی سلامتی کے لیے بہتر ہو۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔! اسی مقصد کی حصول یابی کے لئے،انسانیت کی تکمیل کے لیے رب کائنات نے مذہب (مذہب اسلام) کا نظریہ قائم کیا جس کی پوری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ "افضل ترین جہاد خود سے لڑنا ہے"،"خود پر قابو پانا ہے". اب جب انسان اپنے خالق کے پیغام ، اس کے دین اور انسانیت کا سبق سکھانے والی تعلیم گاہوں کو رد کرتا ہے تو علم اور تحقیق کے کتنے ہی مراحل کو طے کر لے اس کے اخلاقی اور عقلی وجود پر پر یہ مادہ پرست وجود ہمیشہ حاوی رہتا ہے ۔اب تک تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ انسان صرف ایک ظاہری اسٹرکچر کا نام نہیں ہے جسے بنا سوچے سمجھے ان ملحدین کی پرکشش نعروں کی نذر کر دیا جائے ۔ دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔! جب ہم ماضی کے دریچے میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سترہویں صدی میں یورپ کے اندر ہر چار ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی نظریات نے پہلی بار دنیا کی ایک کثیر آبادی کو مذہب اور تصور خدا کا باغی کر دیا ۔وہ چار افراد یہ ہیں۔(١) کارل مارکس (٢) چارلس ڈارون (٣) فرائیڈ (٤) ہکسلے۔ان چاروں افراد کا نظریہ اس قدر موثر ثابت ہوا کہ انسانی عقل اور اس کے اخلاقی وجود پر یہ حیوانی وجود غالب آگیا جو اس سیارے پر ہمیشہ تباہی مچانے کے لیے بیتاب رہتا ہے اور اس کے بعد پھر نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی قتل و غارت پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئی جتنی یورپ نے پچھلی دو صدی میں کیا ہے۔کسی بھی سائنسدان کا ہاتھ ایٹم بم،بائیو کیمیکل ویپن،ریڈیو لوجیکل ویپن ،بائیو ایجنٹس اور نیوکلیئر ڈیوائسس ایجاد کرتے وقت نہیں کانپا ۔ریکارڈیڈ ہسٹری کے مطابق سائنسدانوں نے خود حکومت اور ملٹری ہیڈ کوارٹرس کو خط لکھ کر بتایا کہ کہ کس طرح زہریلے مادے کی انتہائی قلیل مقدار سے شہروں کے شہر دم گھٹنے سے مارے جا سکتے ہیں، انہیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کر کے مارا جا سکتا ہے، کیسے فضاؤں میں اسپرے کر کے قحط برپا کیا جا سکتا ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! گزشتہ دو صدی سے انسانوں کے تباہی کی الگ داستان شروع ہوئی ہے ۔کوئی ہاتھ نہیں کانپا ،کوئی دل نہیں لرزا۔پچھلی دو صدیوں سے انسانوں کا قتل انتہائی خطرناک انداز میں جاری ہے ۔کیوں؟ کیونکہ کہ جب مذہب انسان کی زندگی سے رخصت ہوتا ہے تو انسان اچھائی اور برائی کا پیمانہ اپنی مرضی سے بناتا ہے جس میں عقل اور اخلاقیات پر حیوانی وجود پوری طرح غالب ہوتا ہے ۔ایسی کنڈیشن میں سائنسی علوم کی طرف جانا گویا تباہی کی طرف جانا ہے ۔ایک سائنس دان بننے سے پہلے ایک ہمدرد انسان بننا اشد ضروری ہے ۔جب ایک انسان سائنسدان بنتا ہے تو اس کے خیالات کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ عظیم مسلم سائنسدان ابن الہیثم اپنی صبح کے درس میں فرماتے ہیں کہ" یاد رکھو میرے ہم عصرو۔۔۔۔۔! ہماری تحقیق اللہ کی امانت ہے اس امانت کو زہر نہ بنانا،کیونکہ اپنے اللہ کے پاس ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے"۔ دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ملحدین ، لبرلز اور مذہب بیزار کہتے ہیں کہ اب قوم فیصلہ کرے کہ انہی مدارس چاہیے یا لیباریٹریز ؟ میرا ان سے سوال یہ ہے کہ آپ تعصب کی عینک اتار کر ہمارے معاشرے میں جتنے بھی احتجاج اور دھرنے ریکارڈ ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ پرامن احتجاج اور دھرنے دینی مدارس نے ریکارڈ کروائے ہیں ۔ جس میں نہ کوئی بس جلی ،نہ ہی کسی کا جیب کٹا اور نہ ہی حکومتی اثاثے کو نقصان پہنچایا گیا۔بلکہ اگر کہیں انتظامی کمزوری کے تحت کوئی بھوکا رہ گیا تو باقی ساتھیوں نے اپنی جیب سے بھوکے رہ جانے والوں کو کھلایا (الثقافة السنية دارالعلوم دیوبند،ندوۃ العلماء،الجامعۃ الاشرفیہ، اور پاکستان کے مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں جو بھی احتجاجات ہوئے ہیں اس میں آپ نے اس کا بعینہ مشاھدہ کیا ہو گا)انسانی تہذیب کے یہ بلند ترین کردار ہمیں مذہب نے سکھایا ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔! سائنس انسان کا مشاہداتی علم ہے، یہ اچھائی اور برائی کے فرق کو نہیں سمجھتا،یہ انسان کی اخلاقی اقدار کو بھی ٹچ نہیں کرتا،یہ ہمیں اخلاقی طور پر ڈیزائن بھی نہیں کرتا،یہ تو ہزاروں سالوں کے انسانی مشاہدات کی دنیا ہے جسے ہم ایک پروگریسیو ٹول کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعہ ہم اپنے مستقبل کو ڈیزائن کرتے ہیں ،اپنی اس ظاہری دنیا میں دھاگ پیدا کرتے ہیں۔جب کوئی قوم کائنات کی اخلاقی اصولوں سے ہٹ کر اس ٹول کو چھوتی ہے تو وہ قدرت کے آفاقی اصولوں کو چیلنج کر بیٹھتی ہے اور یوں یہ ٹول انسانوں کے لیے زہر بن جاتا ہے ۔مولوی اور مدارس بھلے ہی وقت سے دو سو سال پیچھے چل رہے ہوں لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کو اگر سائنسی تعلیم دی جائے تو یہ اس سیارے پر آگے نکلنے کی ڈیفینیشن چینج کرسکتے ہیں . انسانی بقا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب جو سائنسی علوم کا ماہر نکلے ،لیباریٹریز میں بیٹھنے والا سائنسدان جو بھی ہو،اس کے دل میں قدرت کا خوف اور دنیا کے سب سے اچھے انسان محسن انسانیت پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ ضرور ہو ۔ہم اگر صرف سائنسدان اور صرف لیبارٹریز ہی لے کر چلتے رہیں تو یہ سیارہ دو سو یا ڈھائی سو سال بعد انسانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ ایک خراب اور اندر سے کھوکھلا انسانی اسٹریکچر اس سیارے پر اگر کچھ اچھا بھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے مقاصد زیادہ اچھے نہیں ہوتے۔اگر وہ برا کرتا ہے تو بہت ہی زیادہ برا کرتا ہے اسی لئے اللہ کے رسول محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو ہیومن سائیکلوجی کا اسٹرکچر سمجھایا ہے وہی درحقیقت سائنسی علوم کا حقدار ہے اس بات کا اظہار بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ "حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔وہ اسے جہاں بھی پائے،اسے حاصل کرنے کا زیادہ حقدار ہے"(سنن ترمذی، باب العلم،حدیث ٢٦٨٧) . دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری چند اپنی ذاتی باتیں تھیں۔اب آپ حضرات اپنی قیمتی رائے ظاہر فرمائیں کہ مدارس اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کو اپڈیٹ کیا جائے یا پھر یونیورسٹیز میں مذہب بیزار اور دنیا کی آلایٔس زیبائش و رنگینیوں میں مدہوش ان ناچنے گانے والے ان ٹھرکیوں ( الا ما شاء اللہ) کو سائینسی علوم اور لیباریٹریز کا محافظ بنایا جائے؟اپنا قیمتی مشورہ ضرور عطا فرمائیں۔ از :- #احمداللہ-سعیدی-عارفی متعلم:- جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد۔ 9935586400


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...