جمعہ، 14 اگست، 2020
دوستوں ۔۔۔۔۔۔۔۔! جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد میں طالبان علوم نبویہ کی علمی اور تحقیقی توانائی کو پروان چڑھانے کے لئے گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی تعلیمی، تحقیقی،ثقافتی اور تبلیغی پروگرام ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح شعبہ دعوہ(الدبلوم العالي في الدعوة والعلوم الإسلامية ) اور ثامنہ کے طلبہ کی ذہنی،فکری اور تحقیقی ارتقاء کے غرض سے ہر جمعرات "بزم دانش "کے نام سے ایک محفل کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ خانقاہ عارفیہ/جامعہ عارفیہ میں آۓ دن ملک وبیرون ملک سے محققین اور اسکالرس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کس مذہب و ملت اور مسلک و مشرب سے تعلق رکھتے ہیں، طلبہ کے لئے ان کے فن اور ہنر سے استفادے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ گزشتہ شب تقریبا دو ماہ کے وقفہ کے بعد بزم دانش میں راقم کی حاضری ہوئی ۔ بزم کا عنوان " سوشل میڈیا- موثر استعمال کے آداب اور طریقے" تھا۔ صدارت حضرت علامہ و مولانا غلام مصطفی ازہری صاحب قبلہ کی تھی ۔ان کی عدم موجودگی پر کف افسوس ملتے ہوئے استفادہ سے محروم رہا۔ علامہ ذیشان مصباحی صاحب نے صدارت کی ذمہ داری بحس خوبی انجام دی۔ خصوصی مقررین میں ہمارے مہمان حضرت مولانا رضی احمد مصباحی صاحب اور اکتساب فیض کے غرض سے خانقاہ تشریف لائے ہوئے دور حاضر کے نامور قلم کار اور ناقد حضرت مولانا ناصر رام پوری مصباحی صاحب تھے ۔ اپنی مختصر سی گفتگو میں مولانا رضی احمد مصباحی صاحب نے بتایا کہ اگر آپ اپنی بات حکومت اور اعلی طبقہ کے افراد تک پہنچانے کے خواہاں ہیں تو ٹوئٹر زیادہ موثر ذریعہ ہے لیکن اگر عوامی سطح پر اپنا مواد ارسال کرنا چاہتے ہیں تو فیس بک اور وہاٹس ایپ موزوں ہے ۔ علاوہ ازیں موصوف نے فرمایا کہ ہم میں سے بیشتر حضرات فراست مندی سے گریز کرتے ہوئے عجلت پسندی میں ہر ایرے غیرے کے freind request کو accept کر لیتے ہیں اور کسی بھی شخص کی شناخت کئے بغیر اس کو freind request بھیج دیتے ہیں، یہ مضر ہے ۔ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ ملکی یا علاقائی سطح پر اگر کوئی مسئلہ رواں دواں ہو اور اس کے متعلق آپ لمبی تحریر لکھیں گے تو لوگ آپ کی جانب کم توجہ دیں گے ۔ ایسے موقع پر دو سے تین جملے میں اپنی بات رکھنا زیادہ مناسب ہے ۔ موصوف نے مزید اضافہ کیا سوشل میڈیا کے users تین categories میں ہیں ۔ ایک وہ حضرات جو روزگار کے تئین سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ،دوسرے وہ افراد جو کسی مشن کی نشر و اشاعت کے لئے سوشل میڈیا میں کوشاں ہیں ، اور تیسرے وہ حضرات جو ان دونوں علاوہ ہیں بشمول طلبہ مدارس ۔ اول الذکر دونوں فریقین کے عزائم و مقاصد اس سے متعلق ہیں۔ بنا بر ایں ان دونوں کا اس سے رستگاری ممکن نہیں،وہ اپنے بیشتر اوقات اسی میں صرف کریں گے ۔ تیسرا فریق اگر بقدر ضرورت سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے تو اس کے لئے عافیت ہے ورنہ اگر سوشل میڈیا میں بے جا وقت صرف کیا تو خیبت خسرانی کے سیاہ دلدل میں پھنس کر بنیادی مقاصد کی حصول یابی سے محروم رہے گا ۔ اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی باتیں بتائیں جو سبق آموز تھیں ۔ بعد ازاں صدر محفل صاحب نے مولانا ناصر رام پوری مصباحی صاحب کو مدعو کیا ۔ موصوف نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا میں خبریں براہ راست ہم تک پہنچتی ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خبریں حذف و اضافہ کے بعد ہمیں موصو ل ہوتی ہیں۔ بیشتر میڈیا چینلز سیاسی جماعتوں یا بر سر اقتدار پارٹی کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کی آئیڈیلزم کو لوگوں کے اذہان میں جاگزیں کرتے ہیں ،ان کے عیوب اور ناکامی کو عوام سے پوشیدہ رکھ کر بے جا ان کی مدح و ثنائی کرتے ہیں ۔ بر صغیر میں موصوف چونکہ ایک جارح اور ناقد کی حیثیت سے منفرد شناخت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اس کی مزید ضرورت نہ سمجھتے ہوئے طلبہ اور دیگر حضرات کو مزید ناصر رام پوری نہ بننے کی درخواست کی ۔ علاوہ ازیں موصوف نے اور بھی باتیں کیں جو نصیحت آمیز تھیں ۔ محفل میں دیگر اساتذہ بھی جلوہ گر تھے ۔مولانا ذکی ازہری صاحب قبلہ نے فرمایا کہ ہمارے لئے روا ہے ہم کسی کی تحریر ،تحقیق یا فکر کا تنقیدی جائزہ لیں، لیکن ہماری تحریر میں شائستگی ہونے چاہئے ، الفاظ برق بار نہ ہوں ۔ ان کا اشارہ جناب ناصر رام پوری مصباحی صاحب کی جانب تھا ۔ مولانا رضی احمد مصباحی صاحب نے تطبیق کی صورت نکالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں علماء ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے نرم گوشہ اختیار فرماتے تھے لیکن آج حالات نے کروٹ لی ہے جس کی وجہ سے بعض حضرات کو " کلک رضا ہے خنجر خوں خوار برق بار " کا مصداق ہونا پڑتا ہے ۔ ماہنامہ خضر راہ کے ایڈیٹر حضرت علامہ و مولانا جہاں گیر حسن صاحب مصباحی نے ان کی تائید کی۔ مسئلے میں مزید پیچیدگی پیدا ہونے کی بنا پر علامہ ذیشان احمد مصباحی صاحب نے "دار الافتاء العارفیہ" کے صدر حضرت علامہ و مولانا مفتی رحمت علی مصباحی چشتی قادری صاحب کو لب کشائی کی دعوت دی ۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ درجہ عالمیت کے طلبہ کو ملٹی میڈیا موبائل کی قطعی ضرورت نہیں ورنہ وہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کے بجائے سوشل میڈیا پر بے جا وقت ضائع کریں گے ۔ مولانا ذیشان احمد مصباحی کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی مفتی صاحب قبلہ کی تائید و حمایت کی ۔ پوری گفتگو کا خلاصہ یہ سمجھ میں آیا کہ مبتدئین کو ملٹی میڈیا موبائل اور سوشل میڈیا کی قطعی ضرورت نہیں اور فضیلت کے طلبہ و دیگر حضرات اگر سوشل میڈیا کا استعمال اس کے آداب اور طریقے کو ملحوظ خاطر رکھ کر نہیں کریں گے تو یہ زہر ہلال ثابت ہوگا ۔ والله الاعلم والوفق. راقم:- احمد اللہ سعیدی عارفی ( محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-
-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...
-
ہمارے گاؤں میں ایک جدید ہسپتال کی ضرورت — ایک اجتماعی فلاحی خواب ( تحریر:- محمد احمد رضا چشتی اشرفی رکن آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ یونٹ س...
-
خوشی منانے کا علاقائی انداز اور اس کی شرعی حیثیت تحریر: محمد احمد رضا چشتی اشرفی رکن آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ یونٹ سملیا دنیا بھر میں...
-
-: मौलाना मुहम्मद अहमद रजा चिश्ती अशरफी :. एक सर्वपक्षीय आलिम व धार्मिक शख्शियत :- मौलाना मुहम्मद अहमद रजा चिश्ती अशरफी, जिन्हें Ahmadullah ...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں