مولانا محمد احمد رضا چشتی اشرفی: ایک ہمہ جہت علمی و دینی شخصیت
مولانا محمد احمد رضا چشتی اشرفی، جو احمداللہ سعیدی کے نام سے بھی معروف ہیں، موجودہ وقت میں ضلع اتر دیناجپور کے سورجاپور-دالکولہ خطے کی ایک مایہ ناز دینی، علمی اور فلاحی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک معزز و معروف خانوادے "منشی خاندان" سملیا میں 30 جون 1996 کو پیدا ہوئے۔ ان کے علمی، تحریکی، تعلیمی اور فلاحی کارنامے نہ صرف ان کے گاؤں بلکہ وسیع تر علاقے میں قابل تحسین اور لائقِ تقلید ہیں۔
ابتدائی تعلیم اور علمی سفر
مولانا کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی ایک مقامی دینی ادارے میں ہوئی، لیکن ان کی علمی استعداد اور غیرمعمولی ذہانت کو بھانپتے ہوئے ان کے بڑے ابو، حضرت علامہ و مولانا عالمگیر رضا صاحب قبلہ نے انہیں محض پانچ سال کی عمر میں الہ آباد کے ایک اسکول میں داخل کرا دیا۔ وہاں انہوں نے اپنی ذہانت و فطانت سے ممتاز کامیابیاں حاصل کیں اور ہمیشہ نمایاں پوزیشن کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کیے۔
اپنی والدہ محترمہ کی خواہش پر مولانا احمد رضا نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے لیے انہیں مدرسہ فیضان العلوم داندوپور میں داخل کیا گیا، بعد ازاں، اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے وہ معروف ادارہ جامعہ عارفیہ، سید سراواں میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عالمیت، فضیلت کے تمام مراحل انتہائی کامیابی سے مکمل کیے اور وہیں سے گریجویشن کی سند بھی حاصل کی۔
تدریسی، تحریری اور تخلیقی خدمات
مولانا احمد رضا ایک صاحبِ قلم عالمِ دین ہیں۔ ان کے مضامین وقتاً فوقتاً مختلف رسائل، اخبارات اور ویب سائٹس کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ وہ جدید مسائل پر عالمانہ گفتگو اور دینی رہنمائی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں وقت کی نبض کو سمجھنے کا شعور، زبان و بیان پر عبور، اور مسئلہ فہمی کی گہرائی نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔
جامعہ عارفیہ میں اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی جیسے اہم قومی مواقع کو منانے کی پہل کی، جسے بعد میں ادارے کی انتظامیہ نے بھی قبول کیا۔ یوں انہوں نے دینی اور ملی شعور کو ہم آہنگ کرنے میں بھی ایک مثبت کردار ادا کیا۔
فلاحی خدمات اور سماجی قیادت
کورونا کی عالمی وبا کے بعد مولانا اپنے وطن واپس آئے اور اپنے ہی علاقے میں رہائش اختیار کی۔ واپسی کے بعد انہوں نے اپنے فکری، دینی اور فلاحی کردار سے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کیں۔ ایک موقع پر کھاری بسول میں پیش آنے والے آتشزدگی کے سانحے میں، انہوں نے آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کے صدر حضرت محمد اشرف میاں صاحب قبلہ سے رابطہ کر کے متاثرین کے لیے 2.5 لاکھ روپے کی امداد دلائی۔ اس کے علاوہ ذاتی کوششوں سے مزید 2.5 لاکھ روپے گاؤں والوں سے جمع کر کے متاثرہ خاندانوں تک پہنچائے۔
ان کی قیادت میں جب بھی کوئی حادثہ پیش آیا، چاہے وہ موت و میراث کا مسئلہ ہو یا قدرتی آفت، مولانا نے بڑھ چڑھ کر عملی خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر جب کوئی پردیسی انتقال کر جاتا ہے تو میت کو گاؤں لانے کا سارا خرچ بورڈ کی مقامی یونٹ برداشت کرتی ہے، جس میں مولانا احمد رضا کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
ادارہ جاتی کارنامے
سابق پردھان غلام سرور چودھری، مولانا رضوان ہاشم اور دیگر معززین کے تعاون سے انہوں نے اپنے گاؤں سملیا میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی یونٹ قائم کی۔ اس یونٹ کے تحت علاقے میں فلاحی و دینی کاموں کا جال بچھایا گیا، جن میں مولانا شہباز عالم چشتی کی معاونت بھی شامل رہی۔ مختلف فلاحی اسکیموں، تعلیمی سہولیات اور مذہبی خدمات کے سلسلے میں مولانا احمد رضا نے نمایاں کردار ادا کیا۔
مدنی کیمرج اسکول: تعلیم و تربیت کا مرکز
مولانا محمد احمد رضا نہ صرف ایک عالمِ دین اور مضمون نگار ہیں، بلکہ ایک باصلاحیت تعلیمی منتظم بھی ہیں۔ وہ سورجاپور کے معروف تعلیمی ادارے مدنی کیمرج اسکول کے پرنسپل ہیں، جہاں جدید عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دین و اخلاق کی تربیت کا بھی خاص نظم کیا گیا ہے۔ اسکول کی انفرادیت یہ ہے کہ وہاں انگلش میڈیم تعلیم کے ساتھ دینیات کا مکمل نصاب بھی شامل ہے، جس سے طلبہ کی ہمہ جہتی تربیت ممکن ہو پاتی ہے۔
عقائد و نسبت
فقہی لحاظ سے مولانا محمد احمد رضا حنفی ہیں، اور عقائد کے باب میں ماتریدی مکتب فکر سے وابستہ ہیں۔ ان کا روحانی مشرب چشتی ہے اور وہ سلسلہ چشتیہ کی تعلیمات و روحانیت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ عقیدہ و عمل دونوں میں ان کی روشنی قابل رشک ہے، مگر اس کے باوجود بعض بدخواہ عناصر ان کے بارے میں شبہات پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر ان کی زندگی اور ان کا کردار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ ہمیشہ دین و سنیت پر ثابت قدم رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت کے کئی جید علما سے ان کے گہرے تعلقات قائم ہیں۔
اختتامیہ
مولانا محمد احمد رضا چشتی اشرفی ایک ہمہ جہت، متوازن، اور فعال شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی علم، عمل، خدمت، اخلاص، اور قیادت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی تحریری و تقریری صلاحیتیں، تنظیمی فہم، تعلیمی بصیرت اور فلاحی سرگرمیاں انہیں نئی نسل کے لیے ایک رول ماڈل بناتی ہیں۔ ایسے علماء کی موجودگی قوم و ملت کے لیے باعثِ رحمت اور وجہِ فخر ہے۔
#ahmadullahsaeedi #احمداللہ_سعیدی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں