ہفتہ، 30 جنوری، 2021

-: مندروں کا انہدام،شبہات وازالہ:-

 


تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہر معاشرے میں موزونیت کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ حالانکہ تاریخ کا اصل مطالعہ بذات خود غیر جانبداری کا متقاضی ہے۔ ماضی قریب اور عصر حاضر کے بعض غیر مسلم  مورخین نے مسلم حکمرانوں پر متعدد بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں،جن میں سے ایک الزام مندر شکنی کا بھی ہے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں سیاست کا ضروری جزو جنگ وجدل بھی رہا ہے   بعض زیادتیوں کا سرزد ہونا کوئی بعید نہیں، مسلم حکمران بھی انسان رہے ہیں اور انسان بہر حال غلطی کا پتلا ہے، اس سے بعض مظالم کا واقع ہونا عجب نہیں، لیکن یہ کسی طورپر مناسب نہیں کہ مسلم حکمرانوں کے  تیین نفرت کا بیج بونے کے لیے حقائق سے قطع نظر بناؤٹی اور دل آزار واقعات پیش کیے جائیں،

ماضی میں حکمرانوں کی یہ عام روایت رہی ہے  کہ وہ اپنے مخالف مذہب یا مسلک کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے یا انہیں اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے میں ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے( David d Shalman, 'Tamil temple myths:sacrifice and divine message in the South Indian (Shiva tradition
لیکن بفضلہٖ تعالی  مسلم حکمرانوں نے حتی الامکان اپنے آپ کو اس عمل سے باز رکھا۔مسلمان حکمرانوں پر مندر شکنی کا الزام لگایا جاتا  ہے اور اس سے متعلق واقعات کو بیان کر نے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔

واضح رہے  کہ جنگ کے دوران کسی مندر کی بربادی، دشمن کا عبادت گاؤں کا سہارا لینا ہوتی تھی اس لیے وہ بھی ہدف بن جاتیں لیکن جب صلح کی صورت پیدا ہوجاتی تو ان عبادت گاہوں کی تخریب کاری سے ہاتھ روک لیا جاتا۔جنگ کے علاوہ کہیں کسی مندر کو منہدم کیا گیا تو اسکی کئی معقول وجوہات ہوتی تھیں۔(سبرتو چٹرجی،بلاگ)

ماضی قریب کے برطانوی موٴرخین اور خود ہندوستانی موٴرخین واہل قلم کے ایک طبقہ نے اس زمانہ کے مزاج یادرباری موٴرخین کے انداز تحریر کو دانستہ یا نادانستہ اس باب میں مسلم حکومتوں کے طرز عمل کی جو ترجمانی کی ہے ،یا اس سے متعلق واقعات کو جس طرح بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے وہ نہ صرف علمی بددیانتی بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کی بد ترین مثالیں ہیں ۔

اپنی ادنی سی تحقیق کے تیین جب میں تاریخ کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہوا تو ایسے بے شمار واقعات سے روشناس ہوا جن میں غیر مسلم حکمران خود مندروں کی تخریب کاری اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں ملوث تھے۔ ان میں سے چند واقعات درج ذیل ہیں۔

• پلووا کے حکمران "نرسنگھ ورمن" نے "چالوکیو" کے دارالحکومت "واٹاپی" سے گنیش کے بت کو لوٹ لیا۔  بعد میں ، "چالوکیو" نے بھی شمالی ہندوستان سے گنگا-جمنا کے بتوں کو لوٹ کر جنوب میں قائم کیا۔  پرمار خاندان نے 12 تا 13 ویں صدی میں گجرات کے جین مندروں کو لوٹ لیا۔  یہ روایت ترکوں کی آمد کے بعد بھی جاری رہی۔۔  (پروفیسر روہیت شرما، بلاگ،نشر ،٢٠ اپریل ٢٠٢٠)

•  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم ترکوں کی آمد سے پہلے ہی ، اقتدار کی جدوجہد کا مرکز مندر تھے۔  فتح کا اعلان کرنے اور شکست خوردہ بادشاہ کو رسوا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔  بعد میں چند  مسلم حکمرانوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔. ( ڈی،این،جھا اگینسٹ دی گرین)

•  15 ویں صدی میں اڑیسہ کے حکمران "کپل دیو" نے "کاویری مہانے"  کے  شیو (शैव)اور ویشنو (वैष्णव )مندروں کو لوٹ لیا اور بعد ازاں  16 ویں صدی میں "کرشن دیو رائے" نے "ادیےگیری" سے "بال کرشن" کے مورتی کو لوٹ لیا۔  مراٹھوں نے شرینگری (शृंगेरी) کے "شاردا مٹھ" کو لوٹا اور اس بت کو توڑ دیا۔۔ (پروفیسر روہیت شرما، بلاگ،نشر ،٢٠ اپریل ٢٠٢٠)

•   "مراٹھا" ہندو تھے ، پھر بھی انہوں نے سرینگری(शृंगेरी) مٹھ پر حملہ کیا! بعد میں "ٹیپو سلطان" نے مٹھ کی بحالی میں بھی مدد کی۔ ( میگزین ،ستیا گرہ، نشر ،۴ مئی 2020).

•   مہاراجہ" اشوک" کا ایک بیٹا "جلوکا"جو کہ اپنے والد کی طرح بودھ مذہب کا پیروکار نہیں تھا بلکہ شیوایٔٹ(شیومت، ہندو مذہب کے تین فرقوں (دیومت ،شیومت، وشنو مت) میں سے ایک فرقہ) تھا ،اس نے بے شمار بودھ مندروں کو توڑا۔( ڈی،این،جھا، اگینسٹ دی گرین)

•  مشہور مؤرخ "ڈی، ڈی، کوشامبی" اپنی کتاب (مذہبی نیشنلزم ، میڈیا ہاؤس ، 2020 ، صفحہ 107) میں لکھتے ہیں کہ گیارہویں صدی میں ، کشمیر کے راجہ "ہرش دیو" نے "دوواٹواپٹن" (दोवोत्वपतन) نائک کے لقب کا افسر مقرر کیا تھا۔  اس افسر کو ایسی مجسموں پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس میں ہیرے ، موتی اور قیمتی پتھر موجود تھے۔

•  تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بدھ مت اور ہندوؤں کے مابین تصادم میں سیکڑوں بدھ مندر ٹوڑے گئے تھے۔
مؤرخ ڈاکٹر "ایم, ایس, جئے پرکاش" کے مطابق ، ہندو مذہب کی بحالی کے ارادے سے 830 سے ​​966 ء کے درمیان گوتم بدھ کے سیکڑوں مجسمے ، اسٹوپ اور ویہار(خانقاہ) تباہ کردیئے گئے تھے۔  ہندوستانی اور غیر ملکی ادبی اور آثار قدیمہ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے بدھ مت کو ختم کرنے کے لئے کس طرح سفاکانہ مظالم کیے تھے۔  بہت سے ہندو حکمرانوں کو فخر تھا کہ انہوں نے بدھ مت اور ثقافت کو مکمل طور پر ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔(رام پنیانی، ہندی سبرنگ،September 18, 2020)۔

•  "ڈی، این، جھا" نے لکھا ہے کہ "شنگا" عہد میں برہمن حکمران "پشومتر شنگا"  جو کہ بدھ مذہب کے بڑے مخالفین میں سے تھے ,انہوں نے بے شمار بدھسٹوں کو قتل کیا اور بودھ مندروں کو توڑا ۔ "پشومتر شنگا" نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو بدھسٹوں کا ایک سر کاٹ کر لائے گا اسے اتنا پیسہ ملے گا۔( ڈی،این،جھا، اگینسٹ دی گرین)

• "سانچی"  جو کہ اشوکا کے زمانہ ہی سے بدھ ازم کی سائٹ تھی،لیکن اسے بھی پشتو متر سونگا نے مسمار کیا۔

مذکورہ بالا سطور سے یہ بات آپ کے ذہن نشیں ہو گئی ہوگی کہ ماضی میں مندروں کی تخریب کاری  دراصل سیاست کا حصہ تھیں۔اور مسلم حکمرانوں پر مندر شکنی کے الزام کی جو نوعیت ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ماضی کے دریچے میں اس طرح کے بے شمار شواہد و قرائن ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قبل مسیح اور بعد مسیح وطن عزیز میں ایک قبیلہ جب دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوتا تو ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ مندروں کو بھی مسمار کر دیتا ،اسی طرح جب ایک راجا دوسرے راجہ کے علاقے پر حملہ کرتا تو اس راجہ سے متعلق تمام تر اداروں کو توڑ دیتا اور چونکہ ان ادوار میں منادر راجاؤں کی سائٹ ہوا کرتی تھیں اس لیے فاتح راجہ مفتوح راجہ کے مندروں کو بھی توڑ دیتا ۔ماضی میں یہ عام روایت تھی۔

#احمداللہ_سعیدی_عارفی

9935586400











منگل، 12 جنوری، 2021

#कौन_कब_दुखी_होता_है?


 #कौन_कब_दुखी_होता_है?


 ✒️1-आमाशय दुखी होता है जब आप प्रातः काल अल्पाहार नही करते हैं।


 ✒️2-किडनी दुखी होती है जब आप 24 घण्टे में 10 गिलास पानी नही पीते ।


 ✒️3-पित्ताशय दुखी होता है जब आप रात्रि 11 बजे तक सोते नही है और सूर्योदय से पूर्व जागते नही हैं।


 ✒️4-छोटी आंत दुखी होती है जब आप ठंडा और बासी भोजन करते हैं।


 ✒️5-बड़ी आंत दुखी होती है जब आप बहुत तला भुना और मसालेदार भोजन करते हैं।


 ✒️6-फेफड़े दुखी होते हैं जब आप सिगरेट,और धुयें  आदि से प्रदूषित वातावरण में सांस लेते हैं।


 ✒️7-लिवर दुखी होता है जब आप बहुत भारी जंक, फ़ास्ट फ़ूड खाते हैं।


✒️ 8-हृदय दुखी होता है जब आप अपने भोजन में अधिक नमक और घी तेल खाते हैं।


 ✒️9-अग्नाशय दुखी होता है जब आप मीठी चीजे ज्यादा खाते हैं क्योंकि वो स्वादिष्ट और सहज उपलब्ध हैं।


 ✒️10-आंखे दुखी होती हैं जब आप कम प्रकाश में मोबाईल और कम्प्यूटर स्क्रीन पर काम करते हैं।


✒️ 11-मस्तिष्क दुखी होता है जब आप नकारात्मक सोचने लगते हैं।


 ✒️12-आत्मा दुखी होती है जब आप नैतिकता के विरुद्ध कार्य करते हैं।


 ये उपरोक्त सभी अंग बाजार में उपलब्ध नही हैं कि आप पुनः खरीद कर लगवा लेंगे, इसलिए अच्छी तरह से देखभाल कर अपने शरीर  को स्वस्थ रखिये।


#अहमदुल्लाह_सईदी_आरफी

9935586400

پیر، 11 جنوری، 2021

#تہذیب_و_تمدن_کا_خاص_خیال_رکھیں.



#تہذیب_و_تمدن_کا_خاص_خیال_رکھیے.

✒️پانی یا کوئی چیز پیتے وقت گلاس وغیرہ سیدھے ہاتھ میں رکھیں۔

✒️ بائیں ہاتھ سے نہ پئیں، کپڑے اور بدن صاف ستھرا رکھیں۔

✒️ پہننے سے پہلے کپڑوں کو دیکھ لیجئے  کہ پھٹے ہوئے یا سیون کھلا ہوا تو نہیں ہے۔

✒️ سامان مقررہ جگہ پر سلیقہ سے رکھیں، جو چیز جہاں سے لیے پھر وہیں۔

✒️ کپڑے خصوصا انڈرویر ایسی جگہ نہ سکھائیں جہاں پر لوگوں کی نظر پڑتی ہوں۔

✒️ پاجامہ پر صرف بنیان پہن کر مت رہیں۔

✒️ناک اور کان کی صفائی، دانت کا خلال ضروری ہے لیکن لوگوں کے سامنے یہ سب کام نہ کریں۔

✒️ ناک کی ریزش بھی نہ نگلیں یہ بہت گندا کام ہے۔ یہ متعدد بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔

✒️ طہارت و استنجاء کے وقت بات نہ کریں،طہارت خانہ کی دیواروں پر گندگی نہ لگائیں۔
✒️ بیت الخلاء کی دیواروں پر نہ کچھ لکھیں اور نہ تھوکیں۔

✒️ گفتگو صاف اور اچھی طرح سنے جیسا کریں۔

✒️ کسی کے گفتگو میں دخل مت دیں، بڑوں کی بات توجہ سے سنیں۔

✒️ فرش پر جوتے یا چپل پہن کر مت جائیں اور نہ دوسروں کی چپل پر اپنی چپل رکھیں۔

از:-  #احمد_اللہ_سعیدی_عارفی

اتوار، 10 جنوری، 2021

-:ہمیں کب خاموش رہنا چاہیئے؟:-

 -:ہمیں کب خاموش رہنا چاہیئے؟:-



*☆خاموش رہئے،* جب آپ غصے میں ہوں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کے پاس دلائل نہ ہوں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ نے کسی بات کی تحقیق نہ کی ہو❕


*☆ خاموش رہئے،* جب سننے اور سیکھنے کا وقت ہو❕


*☆خاموش رہئے،* جب کوئی گناہ کی بات کو لے کر مذاق کرنے لگے❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کی باتوں کا غلط مفہوم لیا جانے لگے❕


*☆خاموش رہئے،* جب دوسرے اپنے معاملات طے کر رہے ہوں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کا بولنا کسی کی دوستی توڑنے کا سبب بننے لگے❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کسی پر تنقید کرنے لگیں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ بات کو پر خلوص طریقے سے نہ کہہ سکیں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کو کچھ بول کر پھچتانا پڑے❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کسی بات کو کئی بار کہہ چکے ہوں❕


*☆خاموش رہئے،* جب آپ کے الفاظ کسی کے لیے ناگوار بن جائیں یا بن جانے کا اندیشہ ہو❕


اس لئے کہ ہمارے آقا، سرورِکائنات ، سرکارِ دو عالم، احمدِمجتبیٰ ، محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے۔۔۔۔۔۔ 


💭 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

*مَنْ صَمَتَ نَجَا*

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

*جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی*"


📌 تو نجات کے لیے کچھ جگہوں پر *خاموش* رہنا بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


َ *🌹خوش رہیں خوشیاں بانٹیں🌹*


از:- احمد اللہ سعیدی عارفی

☘🌸☘🌸☘🌸☘🌸☘🌸☘

جمعرات، 7 جنوری، 2021

 دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


‌استاذ گرامی حضرت علامہ ذکی ازہری صاحب قبلہ جامعہ عارفیہ کے ایک باصلاحیت مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء میں عربی زبان و ادب کے حوالے سے بیداری کے تیین کافی متحرک اور فعال رہتے ہیں۔ آج استاذ محترم موصوف سے کافی دیر تک گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ (موصوف بخوبی جانتے ہیں کہ راقم "علم تاریخ" سے کافی دلچسپی رکھتا ہے) دوران گفتگو راقم کے ہاتھ میں اردو دنیا کے شہرہ آفاق ناول نگار (تاریخ نویس) "نسیم حجازی" کی ناول " کلیسا اور آگ" دیکھ کر موصوف نے فرمایا کہ کسی ایک یا دو فن سے دلچسپی کا ہونا فطری ہے لیکن ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے ہم میں سے ہر ایک کو ان پانچ علوم ( ١:- عقائد، ٢:- فقہ، ٣:- تصوف، ٤:- تفسیر، ٥:- حدیث) کے مبادیات زبان زد ہونا لازمی ہے۔

 

‌ اسلام کے تشریعی فکر کے خزانے کی مکمل تفہیم کے لئے ایک عالم دین کا مذکورہ بالا علوم سے وابستگی از حد ضروری ہے۔ ورنہ پھر افہام وتفہیم میں خطا کے وقوع کا قوی امکان ہے۔ ان میں سے ہر فن کی کم از کم دو دو کتابیں از بر ہونا چاہیے جیسے کہ "عقائد" میں "شرح عقائد" کے جملہ بحث، "فقہ" میں "نور الایضاح" اور "قدوری" ، "تصوف" میں "احیاء العلوم والدین"، "رسالہ مکیہ" و "مجمع السلوک" وغیرھم عن ذالک۔ موصوف نے "احیاء العلوم والدین" اور مجمع السلوک کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ "مجمع السلوک" عشق و عرفان کی انتہا ہے جبکہ "أبو حامد محمد الغزّالي" الطوسي النيسابوري الصوفي الشافعي الأشعري(450 هـ - 505 هـ / 1058م - 1111م) نے "احیاء العلوم والدین" میں اسلام کے تشریعی افکار کو تصوف کے زیورات سے آراستہ کر کے پیش کیا ہے اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔


‌ موصوف نے اظہار تاسف کے ساتھ مزید فرمایا کہ بیشتر طالبان علوم نبویہ میں یہ شعور تب بیدار ہوتا ہے جب وہ اپنے مادر علمی کو خیر باد کہہ چکے ہوتے ہیں یا پھر کچھ ہی ایام باقی رہ جاتے ہیں۔ ایک عالم دین کو اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹہ ضرور نکالنا چاہیے تاکہ وہ مندرجہ بالا علوم کی کتابوں کا بتدریج مطالعہ کر سکے اور ساتھ ہی وقفے وقفے سے کسی آزاد موضوع پر تحقیق کر سکے۔ یہ شعور جس کے اندر جتنی جلدی بیدار ہو جائے وہ اتنا ہی کامیاب رہے گا۔

          

         

  اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی نصیحت آمیز باتیں بتائیں جو قابل عمل ہیں۔

کتبہ:- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا) جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد یوپی ۔

9935586400

 


-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...