تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہر معاشرے میں موزونیت کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ حالانکہ تاریخ کا اصل مطالعہ بذات خود غیر جانبداری کا متقاضی ہے۔ ماضی قریب اور عصر حاضر کے بعض غیر مسلم مورخین نے مسلم حکمرانوں پر متعدد بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں،جن میں سے ایک الزام مندر شکنی کا بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں سیاست کا ضروری جزو جنگ وجدل بھی رہا ہے بعض زیادتیوں کا سرزد ہونا کوئی بعید نہیں، مسلم حکمران بھی انسان رہے ہیں اور انسان بہر حال غلطی کا پتلا ہے، اس سے بعض مظالم کا واقع ہونا عجب نہیں، لیکن یہ کسی طورپر مناسب نہیں کہ مسلم حکمرانوں کے تیین نفرت کا بیج بونے کے لیے حقائق سے قطع نظر بناؤٹی اور دل آزار واقعات پیش کیے جائیں،
ماضی میں حکمرانوں کی یہ عام روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مخالف مذہب یا مسلک کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے یا انہیں اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے میں ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے( David d Shalman, 'Tamil temple myths:sacrifice and divine message in the South Indian (Shiva tradition
لیکن بفضلہٖ تعالی مسلم حکمرانوں نے حتی الامکان اپنے آپ کو اس عمل سے باز رکھا۔مسلمان حکمرانوں پر مندر شکنی کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس سے متعلق واقعات کو بیان کر نے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ جنگ کے دوران کسی مندر کی بربادی، دشمن کا عبادت گاؤں کا سہارا لینا ہوتی تھی اس لیے وہ بھی ہدف بن جاتیں لیکن جب صلح کی صورت پیدا ہوجاتی تو ان عبادت گاہوں کی تخریب کاری سے ہاتھ روک لیا جاتا۔جنگ کے علاوہ کہیں کسی مندر کو منہدم کیا گیا تو اسکی کئی معقول وجوہات ہوتی تھیں۔(سبرتو چٹرجی،بلاگ)
ماضی قریب کے برطانوی موٴرخین اور خود ہندوستانی موٴرخین واہل قلم کے ایک طبقہ نے اس زمانہ کے مزاج یادرباری موٴرخین کے انداز تحریر کو دانستہ یا نادانستہ اس باب میں مسلم حکومتوں کے طرز عمل کی جو ترجمانی کی ہے ،یا اس سے متعلق واقعات کو جس طرح بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے وہ نہ صرف علمی بددیانتی بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کی بد ترین مثالیں ہیں ۔
اپنی ادنی سی تحقیق کے تیین جب میں تاریخ کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہوا تو ایسے بے شمار واقعات سے روشناس ہوا جن میں غیر مسلم حکمران خود مندروں کی تخریب کاری اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں ملوث تھے۔ ان میں سے چند واقعات درج ذیل ہیں۔
• پلووا کے حکمران "نرسنگھ ورمن" نے "چالوکیو" کے دارالحکومت "واٹاپی" سے گنیش کے بت کو لوٹ لیا۔ بعد میں ، "چالوکیو" نے بھی شمالی ہندوستان سے گنگا-جمنا کے بتوں کو لوٹ کر جنوب میں قائم کیا۔ پرمار خاندان نے 12 تا 13 ویں صدی میں گجرات کے جین مندروں کو لوٹ لیا۔ یہ روایت ترکوں کی آمد کے بعد بھی جاری رہی۔۔ (پروفیسر روہیت شرما، بلاگ،نشر ،٢٠ اپریل ٢٠٢٠)
• اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم ترکوں کی آمد سے پہلے ہی ، اقتدار کی جدوجہد کا مرکز مندر تھے۔ فتح کا اعلان کرنے اور شکست خوردہ بادشاہ کو رسوا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ بعد میں چند مسلم حکمرانوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔. ( ڈی،این،جھا اگینسٹ دی گرین)
• 15 ویں صدی میں اڑیسہ کے حکمران "کپل دیو" نے "کاویری مہانے" کے شیو (शैव)اور ویشنو (वैष्णव )مندروں کو لوٹ لیا اور بعد ازاں 16 ویں صدی میں "کرشن دیو رائے" نے "ادیےگیری" سے "بال کرشن" کے مورتی کو لوٹ لیا۔ مراٹھوں نے شرینگری (शृंगेरी) کے "شاردا مٹھ" کو لوٹا اور اس بت کو توڑ دیا۔۔ (پروفیسر روہیت شرما، بلاگ،نشر ،٢٠ اپریل ٢٠٢٠)
• "مراٹھا" ہندو تھے ، پھر بھی انہوں نے سرینگری(शृंगेरी) مٹھ پر حملہ کیا! بعد میں "ٹیپو سلطان" نے مٹھ کی بحالی میں بھی مدد کی۔ ( میگزین ،ستیا گرہ، نشر ،۴ مئی 2020).
• مہاراجہ" اشوک" کا ایک بیٹا "جلوکا"جو کہ اپنے والد کی طرح بودھ مذہب کا پیروکار نہیں تھا بلکہ شیوایٔٹ(شیومت، ہندو مذہب کے تین فرقوں (دیومت ،شیومت، وشنو مت) میں سے ایک فرقہ) تھا ،اس نے بے شمار بودھ مندروں کو توڑا۔( ڈی،این،جھا، اگینسٹ دی گرین)
• مشہور مؤرخ "ڈی، ڈی، کوشامبی" اپنی کتاب (مذہبی نیشنلزم ، میڈیا ہاؤس ، 2020 ، صفحہ 107) میں لکھتے ہیں کہ گیارہویں صدی میں ، کشمیر کے راجہ "ہرش دیو" نے "دوواٹواپٹن" (दोवोत्वपतन) نائک کے لقب کا افسر مقرر کیا تھا۔ اس افسر کو ایسی مجسموں پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس میں ہیرے ، موتی اور قیمتی پتھر موجود تھے۔
• تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بدھ مت اور ہندوؤں کے مابین تصادم میں سیکڑوں بدھ مندر ٹوڑے گئے تھے۔
مؤرخ ڈاکٹر "ایم, ایس, جئے پرکاش" کے مطابق ، ہندو مذہب کی بحالی کے ارادے سے 830 سے 966 ء کے درمیان گوتم بدھ کے سیکڑوں مجسمے ، اسٹوپ اور ویہار(خانقاہ) تباہ کردیئے گئے تھے۔ ہندوستانی اور غیر ملکی ادبی اور آثار قدیمہ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے بدھ مت کو ختم کرنے کے لئے کس طرح سفاکانہ مظالم کیے تھے۔ بہت سے ہندو حکمرانوں کو فخر تھا کہ انہوں نے بدھ مت اور ثقافت کو مکمل طور پر ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔(رام پنیانی، ہندی سبرنگ،September 18, 2020)۔
• "ڈی، این، جھا" نے لکھا ہے کہ "شنگا" عہد میں برہمن حکمران "پشومتر شنگا" جو کہ بدھ مذہب کے بڑے مخالفین میں سے تھے ,انہوں نے بے شمار بدھسٹوں کو قتل کیا اور بودھ مندروں کو توڑا ۔ "پشومتر شنگا" نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو بدھسٹوں کا ایک سر کاٹ کر لائے گا اسے اتنا پیسہ ملے گا۔( ڈی،این،جھا، اگینسٹ دی گرین)
• "سانچی" جو کہ اشوکا کے زمانہ ہی سے بدھ ازم کی سائٹ تھی،لیکن اسے بھی پشتو متر سونگا نے مسمار کیا۔
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات آپ کے ذہن نشیں ہو گئی ہوگی کہ ماضی میں مندروں کی تخریب کاری دراصل سیاست کا حصہ تھیں۔اور مسلم حکمرانوں پر مندر شکنی کے الزام کی جو نوعیت ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ماضی کے دریچے میں اس طرح کے بے شمار شواہد و قرائن ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قبل مسیح اور بعد مسیح وطن عزیز میں ایک قبیلہ جب دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوتا تو ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ مندروں کو بھی مسمار کر دیتا ،اسی طرح جب ایک راجا دوسرے راجہ کے علاقے پر حملہ کرتا تو اس راجہ سے متعلق تمام تر اداروں کو توڑ دیتا اور چونکہ ان ادوار میں منادر راجاؤں کی سائٹ ہوا کرتی تھیں اس لیے فاتح راجہ مفتوح راجہ کے مندروں کو بھی توڑ دیتا ۔ماضی میں یہ عام روایت تھی۔
#احمداللہ_سعیدی_عارفی
9935586400




