جمعہ، 31 جولائی، 2020

دوستوں .......!اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے کرہ ارض پر بنی نوع انسان کی جو صورت حال ہے وہ ہرکس و ناکس پر روز روشن کی مانند عیاں ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ مستقبل میں ہمیں مولوی اور دینی مدارس چاہیے یا سائنسدان اور لیبارٹریز؟ مولوی حضرات ہمارے سالہا سال کی انویسٹمینٹ کھا کر غائب رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مذہب کا بھید بھی کھل چکا ہے کہ یہ محض انسانی فہم اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ ہم میں سے بے شمار حضرات ایسے کہ ہیں کہ اگر وہ اس دارفانی سے رخصت ہو جائیں تو ہم ان کے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لگاتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ حدیث پاک " الخلق كلهم عيال الله" کے تیٔین اگر دیکھیں تو بنی نوع انسان کیلئے جو سائنسدان اپنی زندگی کی آخری سانس تک لیبارٹریز میں محاذ سنبھالے رہتے ہیں یا جو سائنسدان آج کورونا وائرس کی ویکسین کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں یا جن سائنسدانوں نے اس جیسی متعدد بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے ان میں سے کسی کو بھی ہم رحمۃ اللہ علیہ یا ان جیسے کسی محترم کلمات سے یاد نہیں کرتے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہی سائنسدان لیباریٹریز میں رہ کر کوئی نہ کوئی ویکسین دریافت کریں گے جو ہم میں سے ہر کسی کو, خواہ وہ کوئی سرمایہ دار ہو ، بہت بڑا تاجر ہو یا کوئی مزدور , یہ سائنسدان ہی ان کو یقین دلائیں گے کہ اب وہ اس مہاماری سے محفوظ ہیں ۔ اس ویکسین کے استعمال کے بعد ہم ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچیں گے کہ اب ہمیں کس پر انویسٹمنٹ کرنا ہے, مولوی اور مدارس پر یا سائنسدان اور لیباریٹریز پر۔ دوستوں یہ ہے مذہب بیزار سوچ رکھنے والوں کا موجودہ نعرہ۔ میرا خیال یہ ہے کہ بات کی ہزار چوٹوں سے وقت پر لگائی گئی ایک چوٹ بہت کچھ تبدیلیاں لاتی ہے۔ بے شمار انقلابی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے ۔ملحدین نے موجودہ صورتحال میں مولوی اور مدارس کے خلاف جو محاذ آرائی کی ہے وہ بہت ہی خطرناک طریقے سے ایک نشانے پر بیٹھ رہی ہے۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی ہمیں مذہبی درس گاہیں بند کر دینی چاہیے ؟ کیا ہمیں مذہب اور اس کے مبلغین کی تمام فنڈوں پر قدغن لگا دینی چاہیے؟ اور مستقبل کے لیے سائنسدان اور لیباریٹریز کا اہتمام کرنا چاہیے؟ آج ہم مذہب بیزار کمیونٹی کے اس اہم پروپیگنڈے کا انکاؤنٹر کریں گے جن کے ہزار سوالوں کے پیچھے ایک ہی سوال چھپا ہے کہ مذہب ہماری زندگی کیلئے، ہمارے لئے ضروری کیوں ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! دنیا کے ۸/ ارب باشندوں میں سے جتنے افراد ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں،ان تمام میں سے ۸۰/ فیصد لوگ شوٹنگ گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ ہم گیمز میں لوگوں کو گاڑی کے نیچے کچلنا اور انہیں نت نئے طریقے سے مارنا بہت پسند کرتے ہیں ۔ کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم اس طرح کے گیمز کھیلنا کیوں پسند کرتے ہیں؟ اور گیمز میں ہمیں لوگوں کو مارنے کی ترغیب کیوں دی جاتی ہے؟ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب کسی فرد کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے تو وہ لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ کیوں؟دوستو اسی پوائنٹ کے اندر اس سوال کا جواب ہےکہ مولوی یا سائنٹسٹ ؟ مذہب یا لیبارٹریز؟ ہمارے پاس کیا ہونا چاہئے؟ Human intelligence, moral existence and animal existence دوستو یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن کی تکمیل سے کوئی انسانی وجود قائم ہوتا ہے۔ انسانی ذہانت ایک ایسی توانائی ہے جو انسان کو دوسروں سے سے ممتاز کرتی ہے ہے جس کے ذریعے انسان سوالوں کی دنیا میں اپنی منزل تلاش کرتا ہے اور مضبوط فیصلے کرتا ہے ۔دوسرے نمبر پر ہے moral existence یعنی اخلاقی وجود جو انسان کے رویے کو ترتیب دیتا ہے جو اسے فورس کرتا ہے ہے کہ اس کی ایجاد ،‏تھیوری یا تحقیق غلط مقاصد کے لئے استعمال نہ ہوں۔یہ اخلاقی وجود ہر لمحہ انسان کے اندر تمام تر ذمہ داریوں کے احساس کو برقرار رکھتا ہے عموما کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جب ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو تکلیف دیں، انہیں نقصان پہنچائیں۔ بعض حضرات تو اپنی حیثیت کے مدنظر ان خواہشات کو پوری بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کا اخلاقی ‌وجود اسے ان حرکتوں سے باز رکھتا ہے۔ تیسرے نمبر پر ہے انیمل ایگزسٹینس یعنی ہمارا ظاہری وجود جو کہ فلسفے کے اعتبار سے ایک حیوانی وجود کہلاتا ہے اب یہ جو ہمارا ظاہری وجود ہے اس کے تقاضے اور اس کی خواہشات انتہائی خطرناک درجے کے ہیں دنیا کا کوئی بھی فرد وہ چا ہے وقت کا شریف ترین انسان ہی کیوں نہ ہو وہ دوسروں کو اپنے سامنے زیر دیکھنا پسند کرتا ہے , (الا ما شاء ....)وہ دوسرے انسان کو اپنے آ گے بے بس،لاچار اور ہاتھ پھیلاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔یعنی پاور کا حصول چاہتا ہے. خواہشات کی تکمیل انسانی وجود کا سب سے بڑا ڈیمانڈ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 70 فیصد لوگ شوٹنگ گیمز اور کلینک گیمز کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ وہ لا شعوری طور پر اپنی حیوانی وجود کی خواہش کا تکملہ کرتے ہیں۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! انسان کا ظاہری اسٹرکچر انتہائی خطرناک ترین ہوسکتا ہے اگر اس کو بلا ضرورت صرف تسکین کے لئے اس سیارے پر استعمال کیا جائے۔قدرت نے اس خطرناک ترین اسٹریچر کو قابو میں رکھنے کے لیے انسان کو ہیومن انٹیلیجنس اور مورل ایگزسٹینس یعنی عقل اور اخلاقی احساس جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔جس کے ذریعے علم و فن کا بہت سارا کام لیا جانا چاہیے۔اس کے ذریعے اتنا کام لیا جائے کہ انسان کو اپنی ضروریات سے فرصت ہی نہ ملے ۔ دوستو۔۔۔۔۔۔! انسانی وجود کے اندر عقل اور اخلاقی احساس کی تعریف معاشرے کے ماحول کے مطابق پروان چڑھتی ہے مثلا ہلاکو خان اپنوں کے لئے تو بہت بہترین فیصلہ ساز اور ہمدرد رہا ہوگا لیکن دوسرے انسانوں کے لیے وہ بہت ہی خطرناک ثابت ہوا۔یعنی اس خطرناک انسانی اسٹرکچر کے اندر عقل اور اخلاقی وجود کو بھی ایک پیمانہ اور ایک ٹریننگ دینے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس ظاہری وجود کی ہلاکت خیزی کو مزید پھیلنے سے روک سکے ۔یہ خطرناک اسٹرکچر چاہتے ہوئے بھی خود کو دبا دے اور صرف وہی کرے جو اس کے ذاتی وجود اور اس سیارے کی سلامتی کے لیے بہتر ہو۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔! اسی مقصد کی حصول یابی کے لئے،انسانیت کی تکمیل کے لیے رب کائنات نے مذہب (مذہب اسلام) کا نظریہ قائم کیا جس کی پوری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ "افضل ترین جہاد خود سے لڑنا ہے"،"خود پر قابو پانا ہے". اب جب انسان اپنے خالق کے پیغام ، اس کے دین اور انسانیت کا سبق سکھانے والی تعلیم گاہوں کو رد کرتا ہے تو علم اور تحقیق کے کتنے ہی مراحل کو طے کر لے اس کے اخلاقی اور عقلی وجود پر پر یہ مادہ پرست وجود ہمیشہ حاوی رہتا ہے ۔اب تک تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ انسان صرف ایک ظاہری اسٹرکچر کا نام نہیں ہے جسے بنا سوچے سمجھے ان ملحدین کی پرکشش نعروں کی نذر کر دیا جائے ۔ دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔! جب ہم ماضی کے دریچے میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سترہویں صدی میں یورپ کے اندر ہر چار ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی نظریات نے پہلی بار دنیا کی ایک کثیر آبادی کو مذہب اور تصور خدا کا باغی کر دیا ۔وہ چار افراد یہ ہیں۔(١) کارل مارکس (٢) چارلس ڈارون (٣) فرائیڈ (٤) ہکسلے۔ان چاروں افراد کا نظریہ اس قدر موثر ثابت ہوا کہ انسانی عقل اور اس کے اخلاقی وجود پر یہ حیوانی وجود غالب آگیا جو اس سیارے پر ہمیشہ تباہی مچانے کے لیے بیتاب رہتا ہے اور اس کے بعد پھر نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی قتل و غارت پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئی جتنی یورپ نے پچھلی دو صدی میں کیا ہے۔کسی بھی سائنسدان کا ہاتھ ایٹم بم،بائیو کیمیکل ویپن،ریڈیو لوجیکل ویپن ،بائیو ایجنٹس اور نیوکلیئر ڈیوائسس ایجاد کرتے وقت نہیں کانپا ۔ریکارڈیڈ ہسٹری کے مطابق سائنسدانوں نے خود حکومت اور ملٹری ہیڈ کوارٹرس کو خط لکھ کر بتایا کہ کہ کس طرح زہریلے مادے کی انتہائی قلیل مقدار سے شہروں کے شہر دم گھٹنے سے مارے جا سکتے ہیں، انہیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کر کے مارا جا سکتا ہے، کیسے فضاؤں میں اسپرے کر کے قحط برپا کیا جا سکتا ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! گزشتہ دو صدی سے انسانوں کے تباہی کی الگ داستان شروع ہوئی ہے ۔کوئی ہاتھ نہیں کانپا ،کوئی دل نہیں لرزا۔پچھلی دو صدیوں سے انسانوں کا قتل انتہائی خطرناک انداز میں جاری ہے ۔کیوں؟ کیونکہ کہ جب مذہب انسان کی زندگی سے رخصت ہوتا ہے تو انسان اچھائی اور برائی کا پیمانہ اپنی مرضی سے بناتا ہے جس میں عقل اور اخلاقیات پر حیوانی وجود پوری طرح غالب ہوتا ہے ۔ایسی کنڈیشن میں سائنسی علوم کی طرف جانا گویا تباہی کی طرف جانا ہے ۔ایک سائنس دان بننے سے پہلے ایک ہمدرد انسان بننا اشد ضروری ہے ۔جب ایک انسان سائنسدان بنتا ہے تو اس کے خیالات کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ عظیم مسلم سائنسدان ابن الہیثم اپنی صبح کے درس میں فرماتے ہیں کہ" یاد رکھو میرے ہم عصرو۔۔۔۔۔! ہماری تحقیق اللہ کی امانت ہے اس امانت کو زہر نہ بنانا،کیونکہ اپنے اللہ کے پاس ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے"۔ دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ملحدین ، لبرلز اور مذہب بیزار کہتے ہیں کہ اب قوم فیصلہ کرے کہ انہی مدارس چاہیے یا لیباریٹریز ؟ میرا ان سے سوال یہ ہے کہ آپ تعصب کی عینک اتار کر ہمارے معاشرے میں جتنے بھی احتجاج اور دھرنے ریکارڈ ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ پرامن احتجاج اور دھرنے دینی مدارس نے ریکارڈ کروائے ہیں ۔ جس میں نہ کوئی بس جلی ،نہ ہی کسی کا جیب کٹا اور نہ ہی حکومتی اثاثے کو نقصان پہنچایا گیا۔بلکہ اگر کہیں انتظامی کمزوری کے تحت کوئی بھوکا رہ گیا تو باقی ساتھیوں نے اپنی جیب سے بھوکے رہ جانے والوں کو کھلایا (الثقافة السنية دارالعلوم دیوبند،ندوۃ العلماء،الجامعۃ الاشرفیہ، اور پاکستان کے مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں جو بھی احتجاجات ہوئے ہیں اس میں آپ نے اس کا بعینہ مشاھدہ کیا ہو گا)انسانی تہذیب کے یہ بلند ترین کردار ہمیں مذہب نے سکھایا ہے۔ دوستوں۔۔۔۔۔۔! سائنس انسان کا مشاہداتی علم ہے، یہ اچھائی اور برائی کے فرق کو نہیں سمجھتا،یہ انسان کی اخلاقی اقدار کو بھی ٹچ نہیں کرتا،یہ ہمیں اخلاقی طور پر ڈیزائن بھی نہیں کرتا،یہ تو ہزاروں سالوں کے انسانی مشاہدات کی دنیا ہے جسے ہم ایک پروگریسیو ٹول کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعہ ہم اپنے مستقبل کو ڈیزائن کرتے ہیں ،اپنی اس ظاہری دنیا میں دھاگ پیدا کرتے ہیں۔جب کوئی قوم کائنات کی اخلاقی اصولوں سے ہٹ کر اس ٹول کو چھوتی ہے تو وہ قدرت کے آفاقی اصولوں کو چیلنج کر بیٹھتی ہے اور یوں یہ ٹول انسانوں کے لیے زہر بن جاتا ہے ۔مولوی اور مدارس بھلے ہی وقت سے دو سو سال پیچھے چل رہے ہوں لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کو اگر سائنسی تعلیم دی جائے تو یہ اس سیارے پر آگے نکلنے کی ڈیفینیشن چینج کرسکتے ہیں . انسانی بقا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب جو سائنسی علوم کا ماہر نکلے ،لیباریٹریز میں بیٹھنے والا سائنسدان جو بھی ہو،اس کے دل میں قدرت کا خوف اور دنیا کے سب سے اچھے انسان محسن انسانیت پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ ضرور ہو ۔ہم اگر صرف سائنسدان اور صرف لیبارٹریز ہی لے کر چلتے رہیں تو یہ سیارہ دو سو یا ڈھائی سو سال بعد انسانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ ایک خراب اور اندر سے کھوکھلا انسانی اسٹریکچر اس سیارے پر اگر کچھ اچھا بھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے مقاصد زیادہ اچھے نہیں ہوتے۔اگر وہ برا کرتا ہے تو بہت ہی زیادہ برا کرتا ہے اسی لئے اللہ کے رسول محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو ہیومن سائیکلوجی کا اسٹرکچر سمجھایا ہے وہی درحقیقت سائنسی علوم کا حقدار ہے اس بات کا اظہار بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ "حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔وہ اسے جہاں بھی پائے،اسے حاصل کرنے کا زیادہ حقدار ہے"(سنن ترمذی، باب العلم،حدیث ٢٦٨٧) . دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری چند اپنی ذاتی باتیں تھیں۔اب آپ حضرات اپنی قیمتی رائے ظاہر فرمائیں کہ مدارس اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کو اپڈیٹ کیا جائے یا پھر یونیورسٹیز میں مذہب بیزار اور دنیا کی آلایٔس زیبائش و رنگینیوں میں مدہوش ان ناچنے گانے والے ان ٹھرکیوں ( الا ما شاء اللہ) کو سائینسی علوم اور لیباریٹریز کا محافظ بنایا جائے؟اپنا قیمتی مشورہ ضرور عطا فرمائیں۔ از :- #احمداللہ-سعیدی-عارفی متعلم:- جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد۔ 9935586400


ہفتہ، 25 جولائی، 2020


-:ترکی نے اسرائیل کو فتح کرنے کا خفیہ اعلان کر دیا:-
‌دوستوں۔۔۔۔۔۔۔!!!! 86 سال بعد آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی ،امام ترک وزیر مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباس نے عہد خلافت عثمانیہ میں فتح کی علامت یعنی تلوار تھام کر کل خطبہ جمعہ پڑھی۔دیکھنے والوں پر جلال طاری ہوگیا۔اس موقع پر ترک صدر نے ای
سا بیان جاری کیا جس نے اسرائیل اور امریکہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی جس کے بعد اسرائیلی میڈیا نے نیا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہےاور کہا جا رہا ہے کہ آیا صوفیہ کے معاملے پر اسرائیل اور عیسائی طبقہ ترکی کے خلاف بڑے محاذ کھولنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔آیاصوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانا کیا ترقی کیلئے لیے مشکلات کھڑی کر دے گا؟کیا آپ ترکی کو بھی ایران کے مثل معاشی اور اقتصادی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا؟آئیے زمینی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور آیاصوفیہ کی تاریخی حیثیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
‌دوستوں۔۔۔۔۔۔!چند روز قبل  آنے والے ایک تاریخی فیصلے پر عمل درآمد کروا دیا گیا ہے۔استنبول میں واقع  آیا صوفیہ میں کئی دہائیوں بعد  پہلی مرتبہ نماز جمعہ ادا کی گئی ہے جس کی تیاریاں حکومتی سطح پر کی گئی تھی۔آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لئے صدر رجب طیب اردگان صاحب اپنے وزراء  کی معیت میں وہاں پہنچے تھے ۔جناب اردگان  صاحب نے اس تقریب کے دوران آیا صوفیہ کے اندر لی جانے والی تصاویر کو اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر بھی کیا ہے۔ترکی کے شہر استنبول کی تاریخی جامع مسجد آیا صوفیہ کے منبر اور محرابوں میں 86 سال بعد آذان کی صدائیں بلند ہوئیں تو ملک بھر سے ہزاروں فرزندان توحید کھنچے چلے آئے۔ نماز سے قبل ترک صدر نے  تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ ترکی کے وزیر مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباس نے جمعہ کا خطبہ دیا ۔تلوار کو سیڑھیوں پر ٹیکتے ہوئے جس وقت وہ ممبر پر چڑھے تو دیکھنے والوں پر جلال طاری ہو گیا انہوں نے تلوار تھا مے خطبہ دیا جو کہ دور خلافت عثمانیہ  کی ایک روایت ہے اور  فتح کی علامت سمجھی جاتی ہے۔انہوں نے الٹے ہاتھ میں تلوار پکڑی تھی جو ایک طرف تو دشمنوں کے دلوں میں ہیبت طاری کرنے اور دوسری طرف اتحادیوں کو تقویت اور اعتماد کا پیغام دیتی ہے۔
دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔! آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے روح پرور مناظر کو دنیا بھر کے میڈیا چینلز پر دکھایا گیا ۔اس حوالے سے رجب طیب اردگان صاحب نے پوری مسلم امت اور یہودی لابی کو اہم پیغام دیا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان صاحب نے کہا کہ آیاصوفیہ مسجد کے بعد اب ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے۔اب ہم مسجد اقصی کو آزاد کروائیں گے ۔اسرائیلی میڈیا نے ترکی اور ایران کے لیے مسجد اقصی کو آزاد کروانا پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ترکی میں آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر اسرائیل بوکھلاہٹ میں مبتلا ہوگیا ہے۔اسرائیلی میڈیا مذہبی رنگ دیتے ہوئے پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ ترک صدر کے بیان کو مذہبی حلقے عوام میں پھیلا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کام کے لیے تمام عالم اسلام کو متحد ہونا ہوگا اسی طرح ترکی کے حماس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات کے اطلاعات ہیں جبکہ ایران پہلے سے ہی حماس کی حمایت کرتا ہے۔دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی میں بھی  مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانا پہلی ترجیح ہے۔اسرائیل اس خوف میں مبتلا ہے کہ ایران اور ترکی مل کر اسرائیل کا خاتمہ ہی نہ کردیں کیونکہ پچھلے چند ماہ کے دوران ترکی اور ایران کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے ۔دونوں ممالک ہی جارحانہ رویہ رکھتے ہیں اور ان کا مقصد اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  اسرائیلی قوم خوف میں مبتلا ہے ۔
آیاصوفیہ کے تاریخی فیصلے نے  دیگر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بڑا سبق دیا ہے جس کے بعد اسلام کی سربلندی کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس نوعیت کے بیشتر قدیم اسلامی مقامات جنہیں فسطائی طاقتوں کی مدد سے مندر یا کلیساؤں میں تبدیل کر دیا گیا تھا اب ان کی اصل حیثیت بحال کی جانے لگی ہے۔متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں  سے یہ خبر آ رہی ہے کہ یہاں پائی جانے والی متعدد مندر اور گرجا گھر قدیم زمانے میں مساجد ہوا کرتی تھیں۔اب انہیں پھر سے مساجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں ۔
دوستوں۔۔۔۔۔۔۔! گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک خفیہ میٹنگ میں کہا کہ "دنیا کے تین حکمران انتہائی طاقتور اور شاطر ہیں ۔ جن میں ترک صدر رجب طیب اردگان،روسی صدر ولادیمیر پوتین اور چینی صدر شی جن پنگ شامل ہیں۔ اگر میں دوبارہ امریکہ کا صدر نہیں بن سکا تو یہ تینوں صدور امریکہ کی بینڈ بجا دیں گے کیونکہ joy bidden اس قابل نہیں ہیں کہ ان تینوں کا مقابلہ کر سکیں"۔ ٹرمپ کے اس خفیہ پیغام پر امریکی طاقتور شخصیات اور پینٹاگون کے اعلی افسران نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے ۔یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کو دوبارہ صدارت کی کرسی پر سونپنا کیسا ہوگا ؟دراصل ٹرمپ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا نام اس لیے لیا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں  میں اتحاد پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔  ترک صدر اپنے فیصلوں کی مدد سے اس عمل میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں ۔ آیا صوفیہ کے معاملے پر بیشتر اسلامی ممالک نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے  سوائے سعودی عرب اور چند عرب ممالک کے جو اپنے نکمے پن کی وجہ سے بادشاہت چلے جانے کے خوف کو لے کر ہراساں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اکثر عرب ریاستیں اس وقت سعودی عرب کے فیصلے کے خلاف ہو چکی ہیں اور ان کے مابین ترک صدر  کے اقدامات کو سراہا جا رہا ہے۔انہی وجوہات کی بنا پر امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہے ۔ 86 برس بعد آیاصوفیہ میں نماز جمعہ ادا کیا جانا مسلمانوں کی تاریخی فتح ہے اور اس فتح میں جو کردار رجب طیب اردگان صاحب نے نبھایا  وہ قابل ستائش اور لایٔق مبارکباد ہے۔
دوستو۔۔۔۔۔۔۔! یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ فلسطین،  برما  شام اور وطن عزیز کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی کے پیچھے اسلام دشمن عناصر ہیں ۔وہ قوتیں جو اسلام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں انہوں نے خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف آپس میں اتحاد کر لیا ہے ۔دنیا میں آئے روز مساجد اور مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں لیکن مغربی ممالک آواز نہیں اٹھاتے ۔وطن عزیز کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت  اور بعد ازاں وہاں مندر بنانے کے فیصلے پر دنیا کے مقتدر قوتوں سمیت کسی مہذب ملک کا احتجاج منظر عام پر نہیں آیا اور نہ ہی  دنیا میں کوئی خاطر خواہ بحث ہوئی کسی عالمی نیوز ادارے میں لیکن برادر، اسلامی جمہوریہ  ترکی  کے منتخب صدر رجب طیب اردگان صاحب کی طرف سے آیاصوفیہ کی بحیثیت مسجد بحالی کے اعلان پر پوری دنیا بالخصوص مسیحی ملکوں میں صف ماتم بچھ گئی، ہر چھوٹے بڑے نیوز ایجنسیوں نے  اور عالمی وہ ملکی سطح پر غیر مسلم مشہور شخصیات اور چند نام نہاد مذہب بیزار افراد نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان صاحب حب کے اس فیصلے   کی مذمت میں میگوئیاں شروع کی تو دوسری جانب عالم اسلام میں جشن کا سماں تھا ۔وہاں حالیہ نماز جمعہ ادا کرنے والے ترک مسلمانوں کا جوش و جذبہ قابل دید اور قابل رشک تھا ۔ترک صدر رجب طیب اردگان کا طرز سیاست ،ترکی ریاست کی آزادی ،خود مختاری اور خود ارادی کا غماز ہے۔
آیاصوفیہ فتح ہونے تک مشرقی رومن سلطنت جسے بازنطینی سلطنت کا نہ صرف سب سے بڑا مذہبی مرکز سمجھا  جاتا تھا بلکہ بازنطینی سلطنت کے تمام اہم امور اسی عمارت سے سر انجام دیے جاتے تھے ۔اگر ارطغرل غازی ڈرامے میں کلیساؤں کے کردار پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے  خلاف جنگوں میں یہ کلیسا جاسوسی اور مشاورتی مراکز کے ساتھ ساتھ فوج کے لئے نرسنگ کا کردار ادا کرتے تھے اور جنگوں کے لیے مالی معاونت کے اہم ذریعہ تھے۔
"آیاصوفیہ " یونانی زبان کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں" holy wisdom" ۔
اس کے تاریخی پس منظر پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوا کہ اسے 360 ء میں قسطنطین نے لکڑی سے بنوایا تھا جو کہ چھٹی صدی عیسوی اوایل میں جل گیا تھا ۔ بعد ازاں قیصر جسٹینین اول نے 523 عیسوی میں آیا صوفیہ کو پختہ اور عالی شان عمارت بنانا شروع کیا جس کی تکمیل میں چھ سال لگے  ۔ترک روایات میں ملتا ہے کہ تکمیل کے بعد  جسٹینین اول جب پہلی بار اس عالی شان اور بازنطینی سلطنت کی سب سے عظیم شاہکار  میں داخل ہوا تو اس نے تکبرانا اور گستاخانہ جملہ کہا کہ "سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا"۔اس کے بعد تقریبا ہزار برس تک یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بنی رہی۔ اور آخری بار 28 مئی 1453 عیسوی کو مسیحیوں نے اس میں مذہبی رسومات ادا کی۔ مغربی میڈیا مسجد آیاصوفیہ کے مسئلہ کو متنازع بنا رہا ہے جسے روس نے  فیصلے سے پہلے ہی  ترکی کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن مغربی میڈیا  غیر ضروری طور پر اسے اسلامی اور مغربی ،یعنی عیسائیت کی تہذیب کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہا ہے جس پر روسی آرتھوڈوکس پیٹریارک نے اسے تمام مسیحی تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور پوپ نے اس فیصلے پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے ۔اس کے علاوہ تمام دنیائے عیسائیت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔
آیاصوفیہ کی بطور مسجد بحالی  ببانگ دہل  اعلان ہے  کہ ترکوں نے کمال اتاترک کے فلسفے کو دفن کرکے ایک بار پھر عثمانی سلطنت کو بحال کر دیا ہے۔برصغیر کے بعض دانشوران اسے ترکی صدر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دے رہے ہیں جو یقینا ترکی کے زمینی حقائق سے ناواقف ہیں۔ کمال اتاترک کے سیکولر ایجنڈے کے مسلط ہونے کے باوجود ترکوں کے دل سے مذہبی جذبات اور سلطنت عثمانیہ سے  والہانہ وابستگی کبھی ختم نہ ہوئی ۔ اللہ اپنے حبیب کے صدقےاس طرح قوم کے ذریعے  امت مسلمہ کی سر بلندی و سرخروئی عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
#احمداللہ-سعیدی عارفی۔
متعلم:- جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد یوپی (9935586400)

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...