دوستو..........! مولانا نذر الاسلام صاحب سرجا پور علاقے کے ایک قابل عالم دین تصور کیے جاتے ہیں۔فضیلت تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد موصوف نے چند سال ایک ادارے میں رہ کر تدریسی خدمات انجام دی لیکن چند داخلی وجوہات کی بنا پر موصوف نے اپنے گاؤں ہی میں رہ کر درس و تدریس،دعوت و تبلیغ اور اپنے قبیلے کی اصلاح کو ترجیح دیا۔
ایک با صلاحیت عالم دین ہونے کے ساتھ ہاتھ موصوف بہت ہی اچھے خطیب بھی ہیں۔ کل جمعہ کے دن اپنے خطاب میں موصوف نے فرمایا کہ آج کل اگر کوئی عالم دین اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے اپنے میدان تجارت اترتا ہے یا کسی ہنر سے خود کو آراستہ کرنے کی سعی کرتا ہے تو ہماری قوم کے ہی بیشتر افراد ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور انگشت نمائی کرتے ہوئے زبان دراز ہوتے ہیں کہ دیکھیے عالم ہو کر تجارت کر رہا ہے یا کوئی کام کاج کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ علماء کی شان میں اس نوعیت کے نازیبا کلمات زبان زد کرنے سے قبل ایک لمحہ کے بھی توقف کیے بغیر ذرا تاریخ کے اوراق کو گردانیں اور اپنے اسلاف کی داستان سے رو شناس ہوں۔ان کے عادات واطوار ، حرکات و سکنات، اور شب و روز کے معمولات سے واقفیت حاصل کریں۔ آپ تاریخ کے اوراق کو اپنی آنکھوں کی زینت بنائیں گے تو معلوم ہوگا کہ امام قدوری علیہ الرحمہ (362 هـ - 428 هـ) جیسے لوگ اپنے وقت کے ایک عظیم فقیہ ہونے کے باوجود ایک کمہار بھی تھے، لوگوں کے برتن درست فرما کر اپنے کبنہ کے لئے روزینہ اہتمام کرتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد اور اپنے وقت کے عظیم فقیہ حضرت عبداللہ ابن مبارک کی مثال لے لیجئے ۔۔ آپ کی ساری زندگی حج، تجارت اور جہاد کیلئے سفر کرتے گزری۔آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نےجہاد کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی۔ 118ھ بمطابق736ء کو خراسان میں پیدا ہوئے اور رمضان المبارک 181ھ بمطابق 797ء کو روم کی جنگ سے واپسی پر دریائے فرات کے قریب مقام ہِیْت میں انتقال فرماگئے۔
(الاعلام للزرکلی،ج4،ص115،سیر اعلام النبلاء،ج7،ص602،606)
ایک با صلاحیت عالم دین ہونے کے ساتھ ہاتھ موصوف بہت ہی اچھے خطیب بھی ہیں۔ کل جمعہ کے دن اپنے خطاب میں موصوف نے فرمایا کہ آج کل اگر کوئی عالم دین اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے اپنے میدان تجارت اترتا ہے یا کسی ہنر سے خود کو آراستہ کرنے کی سعی کرتا ہے تو ہماری قوم کے ہی بیشتر افراد ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور انگشت نمائی کرتے ہوئے زبان دراز ہوتے ہیں کہ دیکھیے عالم ہو کر تجارت کر رہا ہے یا کوئی کام کاج کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ علماء کی شان میں اس نوعیت کے نازیبا کلمات زبان زد کرنے سے قبل ایک لمحہ کے بھی توقف کیے بغیر ذرا تاریخ کے اوراق کو گردانیں اور اپنے اسلاف کی داستان سے رو شناس ہوں۔ان کے عادات واطوار ، حرکات و سکنات، اور شب و روز کے معمولات سے واقفیت حاصل کریں۔ آپ تاریخ کے اوراق کو اپنی آنکھوں کی زینت بنائیں گے تو معلوم ہوگا کہ امام قدوری علیہ الرحمہ (362 هـ - 428 هـ) جیسے لوگ اپنے وقت کے ایک عظیم فقیہ ہونے کے باوجود ایک کمہار بھی تھے، لوگوں کے برتن درست فرما کر اپنے کبنہ کے لئے روزینہ اہتمام کرتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد اور اپنے وقت کے عظیم فقیہ حضرت عبداللہ ابن مبارک کی مثال لے لیجئے ۔۔ آپ کی ساری زندگی حج، تجارت اور جہاد کیلئے سفر کرتے گزری۔آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نےجہاد کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی۔ 118ھ بمطابق736ء کو خراسان میں پیدا ہوئے اور رمضان المبارک 181ھ بمطابق 797ء کو روم کی جنگ سے واپسی پر دریائے فرات کے قریب مقام ہِیْت میں انتقال فرماگئے۔
(الاعلام للزرکلی،ج4،ص115،سیر اعلام النبلاء،ج7،ص602،606)
ذریعۂ آمدن آپ کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور فرماتے تھے:اگر پانچ شخصیات نہ ہوتیں تو میں تجارت ہی نہ کرتا،پوچھا گیا وہ پانچ شخصیات کون ہیں تو فرمایا:(1) حضرت سفیان ثوری (2) حضرت سُفیان بن عُیَیْنَہ(3) حضرت فضیل بن عِیاض (4) حضرت محمد بن سَمّاک اور(5) حضرت ابن عُلَیّہ علیہم الرحمۃ آپ تجارت کیلئے خراسان کا سفر فرماتے اور جو نفع ہوتااس میں سے بقدر ضرورت اپنے اہل و عیال کا اور حج کا خرچہ نکال کر باقی ان پانچ ہستیوں کو بھجوادیتے۔ (تاریخ بغداد،ج6،ص234)
علاوہ ازیں بیشتر فقہاء و محدثین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فقہ و فتاؤی یا درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش کے لئے تجارت سے بھی وابستگی رکھی تھی ۔ موصوف نے بتایا کہ کرہ ارض کے ایک حصہ میں جب تک خلفاء راشدین، اموی، عباسی اور عثمانی خلق خدا کی رہنمائی کرتے رہے تب تک اسلام کی ترویج و اشاعت،دعوت و تبلیغ اور فقہ وفتاوی یا درس و تدریس کی خدمت پر مامور حضرات میں سے بیشتر کو حکومت کی جانب سے معاشی امداد حاصل رہی۔ ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہوئے جنہوں نے حکومتی امداد کو صرف نظر کرتے ہوئے کسی ہنر کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی کفالت کا بار گراں برداشت کیا یا پھر تجارت کے ذریعے کسب معاش کو ترجیح دیا۔
اب چونکہ ایسا ماحول نہیں رہا، زمانہ بدل گیا اور جو لوگ مساجد کی امامت پر مامور ہیں یا مذہب اسلام کی دعوت و تبلیغ ، ترویج و اشاعت اور درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں کوئی حکومتی امداد حاصل نہیں (تلنگانہ، مغربی بنگال اور دہلی میں گذشتہ کئی سال سے ایٔمہ اور موذنوں کو تنخواہیں مل رہی ہیں) اور نہ ہی مسلمان صحیح معنوں میں ایٔمہ، دعاة اور مدرسین کو مناسب تنخواہ دیتے ہیں کہ اہل خانہ کی مکمل حاجت روائی ہو سکے۔ ایسے موقع پر اگر بیشتر حضرات معاشی بدحالی کی گرفت سے بچنے کے لئے اپنے بچے ہوئے وقت کو بروئے کار لا کر تجارت سے وابستگی اختیار کرتے ہیں یا کسی ہنر کو سیکھنے میں اپنا وقت صرف کر رہے ہیں تو اس پر کسی کا اعتراض کرنا بے جا اور نا مناسب ہے ۔ اس سے گریز از حد ضروری ہے ورنہ علماء پر اس قسم اعتراض کرنا خیبت و خسرانی کا سبب بن سکتا ہے۔
علاوہ ازیں بیشتر فقہاء و محدثین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فقہ و فتاؤی یا درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش کے لئے تجارت سے بھی وابستگی رکھی تھی ۔ موصوف نے بتایا کہ کرہ ارض کے ایک حصہ میں جب تک خلفاء راشدین، اموی، عباسی اور عثمانی خلق خدا کی رہنمائی کرتے رہے تب تک اسلام کی ترویج و اشاعت،دعوت و تبلیغ اور فقہ وفتاوی یا درس و تدریس کی خدمت پر مامور حضرات میں سے بیشتر کو حکومت کی جانب سے معاشی امداد حاصل رہی۔ ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہوئے جنہوں نے حکومتی امداد کو صرف نظر کرتے ہوئے کسی ہنر کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی کفالت کا بار گراں برداشت کیا یا پھر تجارت کے ذریعے کسب معاش کو ترجیح دیا۔
اب چونکہ ایسا ماحول نہیں رہا، زمانہ بدل گیا اور جو لوگ مساجد کی امامت پر مامور ہیں یا مذہب اسلام کی دعوت و تبلیغ ، ترویج و اشاعت اور درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں کوئی حکومتی امداد حاصل نہیں (تلنگانہ، مغربی بنگال اور دہلی میں گذشتہ کئی سال سے ایٔمہ اور موذنوں کو تنخواہیں مل رہی ہیں) اور نہ ہی مسلمان صحیح معنوں میں ایٔمہ، دعاة اور مدرسین کو مناسب تنخواہ دیتے ہیں کہ اہل خانہ کی مکمل حاجت روائی ہو سکے۔ ایسے موقع پر اگر بیشتر حضرات معاشی بدحالی کی گرفت سے بچنے کے لئے اپنے بچے ہوئے وقت کو بروئے کار لا کر تجارت سے وابستگی اختیار کرتے ہیں یا کسی ہنر کو سیکھنے میں اپنا وقت صرف کر رہے ہیں تو اس پر کسی کا اعتراض کرنا بے جا اور نا مناسب ہے ۔ اس سے گریز از حد ضروری ہے ورنہ علماء پر اس قسم اعتراض کرنا خیبت و خسرانی کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ موصوف نے فرمایا کہ ہم میں سے ہر کسی کو ایک دن اس دار فانی کوچ کر جانا ہے ۔ بعد ازاں روز قیامت اپنے تمام تر عادات و اطوار حرکات و سکنات اور معمولات کا حساب بھی دینا ہے۔ اسی لیے ہمیں کسی کے ٹوہ میں نہ پڑ کر اپنے اعمال و کردار کو سنوارنے میں پوری توجہ دینا چاہیے اور علماء کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی امداد بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ پوری توجہ کے ساتھ خدمت دین میں لگے رہیں تاکہ تا قیامت مذہب اسلام کا بول بالا ہوتا رہے۔
اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی مزید باتیں کیں جو انتہائی سبق آموز تھیں۔
اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی مزید باتیں کیں جو انتہائی سبق آموز تھیں۔
از قلم :- احمد اللہ سعیدی عارفی ( محمد احمد رضا اتر دیناج پور ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد

ماشاءاللہ بہت خوبصورت
جواب دیںحذف کریں