بدھ، 25 مارچ، 2020

-:اہل مذہب اور ملحدین پر کرونا کے اعتقادی اثرات:-
          از:- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا) جامعہ عارفیہ الہ آباد

دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آج پوری دنیا میں آمد و رفت کے ذرائع ، تجارت، تعلیم، سیاست اور مذہبی رسومات پر تقریبا پابندی لگ چکی ہے ۔ غرض ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں ۔ کرونا وائرس کا جن ابھی تک بوتل میں واپس جاتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ۔ اس موضوع پر اس قدر مضامین اور ویڈیوز تیار کی جا چکی ہیں کہ اگر میں اس کا تفصیلی جائزہ لوں تو میرے معمولات کی انفرادیت پر فرق آجائے ۔ لیکن آج میں کرونا سے جڑے ایک اہم گوشہ کے متعلق اپنی انگلیوں کو جنبش دینے پر مجبور ہوا ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر مذہب بیزار سوچ رکھنے والا طبقہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کو اپنے حق میں پوری طرح کیچ کرنے میں مصروف ہے ۔چونکہ یہ کمیونٹی سائنس پرست ہے دنیا کا ہر مذہبی شخص چاہے وہ اس بات کا اظہار نہ کرنا چاہتا ہو لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی نگاہیں اس کرونا کی عذاب سے بچنے کے لئے سائنس ہی کی تجربہ گاہوں پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ایک بار پھر کعبہ سے لے کر یروشلم کی مقدس دیواروں تک ویرانی کا طویل سلسلہ پیدا ہو چکا ہے ۔ایک بار پھر آب زمزم سے لے کر گنگا جل تک کا پانی خود سے جڑی شفا کی سب امیدوں پر پھر چکا ہے ۔ ۲۷ سال کی عمر میں پہلی دفعہ بہت کچھ ایسا دیکھنے کو ملا جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھا ۔اور یہی وہ صورت حال ہے جس سے مذہب مخالف گروہ پوری طرح کور کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔وہ کھل کر اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ- نعوذ بااللہ- کہاں ہے تمہارا خدا ؟؟؟ اور یہ کعبہ میں جراسیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیوں کیا جا رہا ہے؟؟؟ آپ لوگ آب زمزم کا چھڑکاؤ کیوں نہیں کرتے؟؟؟ کیوں کہ اس میں تو آپ کے نزدیک شفا ہے ۔ مذہب اور مذہبی اس قدر بے بس کیوں ہیں؟؟؟کیوں ہماری سائنس کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں؟؟؟ یہ بات مان لو کہ تمہارا مذہب تمہاری اپنی سوچوں کا عکس ہے ، اس کا تمہاری زندگی سے یا کسی خدا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔

دوستوں ۔۔۔! آئندہ سطور میں اس کا جواب ان شاء اللہ میں انتہائی تسلی بخش دوں گا لیکن دوسری طرف ذرا مذہب پرستوں کا بھی جائزہ لے لیں ۔ مذہب پرستوں کی بھی دو گروہ ہیں ۔ خاص طور پر اس حوالے سے مسلمانوں میں دو نظریہ کے حاملین پائے جا رہے ہیں ۔ اول وہ حضرات جو بے وقوف اور بہادر ہیں ۔ جو کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس اللہ کی طرف سے ہے اور اور ہم اللہ کے بندے ہیں ہمیں وائرس سے کوئی نقصان نہیں ۔اسی طرح مسجد میں چھپ کر بیٹھنے پر وائرس حملہ آور نہیں ہوگا ۔ یہ طبقہ زیادہ تر اہل منبر اور ان کے متعلقین پر مشتمل ہے ۔دوسرا طبقہ وہ ہے جو جعلی پیروں اور ان کے لواحقین پر محیط ہے ۔اس وقت ان کی جانب سے عجیب و غریب باتیں سننے میں آ رہی ہیں ۔ جیسے کہ طواف رکنے سے زمین کی حرکت رک جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔

دوستوں ۔۔۔! قوم مسلم میں سے یہ دونوں طبقہ صورت حال کو سمجھنے میں پوری طرح فلاپ ہو چکا ہے ، ان کے پاس کنڈیشن ہولڈ کرنے کی رتی برابر بھی قابلیت نہیں ہے اور اسلام مخالف لوگ ان سارے منظر( sceane ) کو کیچ کر رہے ہیں ۔

دوستوں ۔۔۔۔۔! اب سوال یہ کہ اصل سین کیا ہے؟ کرونا کے پس پشت قدرت کھیل کیا کھیل رہی ہے؟؟؟ یہ چیز بڑی سمجھ سے تعلق رکھتی ہے ۔ اب صورت حال ہے یہ کہ ایک طرف ملحدین اور دوسری جانب مذہب پرست ہیں بشمول مسلمان ۔ ان سارے منظر نامے کے دوران مجھ جیسے لوگ جو اپنی فلسفیانہ اصول کے بجائے اپنے تعصب کے بجائے ہر چیز کو تاریخ، سائنس اور مذہب کے خوبصورت امتزاج سے دیکھنے کے قائل ہیں ایسے لوگ دنیا کے اس سارے منظر نامے کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟؟؟ یا عام لفظوں میں کہا جائے تو کرونا وائرس سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کو کس طرح سمجھنا چاہئیے؟؟؟ اور ہم ان سارے سین کو لے کر دنیا کو کیسے ڈیل کر سکتے ہیں ؟؟؟ سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ مذہب مخالف لوگ ہم سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔لیکن ان کی ذہنی سطح کسی جاہل پیر کو پوجنے والے کسی جاہل مرید سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کیوں کہ تعصب کی عینک سے حاصل کیا گیا علم اکثر بے سود ہوتا ہے ۔اب پہلے تو آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر کرونا وائرس کسی لیبارٹری میں اسپیشل تیار نہیں ہوا ،اگر یہ مصنوعی وائرس نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟؟؟ اس سین کو ہم کس طرح سمجھیں گے؟؟؟
دیکھئے موڈ آف نیچر اور ڈیزائن آف نیچر، دنیا کا ہر خطر ناک حادثہ، اٹیک اور تباہی قدرت کے ان دو قوانین کے اکٹیو ہونے سے ہوتی ہے ۔اب ان دونوں قوانین میں قدرت ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے ۔وہ اس بات سے قطع نظر کہ کون اس کا پیارا ہے اور کون اس کا پیارا نہیں ۔اس کی عبادت گاہیں ویران ہوتی ہیں یا آباد ہوتی ہیں ۔ جب یہ دونوں قوانین، موڈ آف نیچر اور ڈیزائن آف نیچر ایکٹیو ہوتے ہیں تو پھر بار ہا انسان کو یہی لگتا ہے کہ شاید قدرت وجود نہیں رکھتی، ایمان ڈگمگانے لگتا ہے، کیونکہ قدرت ان قوانین کو اپلائی کرنے کے بعد خاموشی سے صرف کھیل دیکھتی ہے اور وہ کھیل بہت دلچسپ ہوتا ہے ۔ تفہیم کے لئے بتا دوں کہ یہ کھیل بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے کہ ہم اپنے سیل فون کا پرانا سوفٹویر اپ گریڈ یا اپڈیٹ لگا کر خاموشی سے اسکین کو دیکھتے رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر چند سال قبل آصفہ نام کی ایک لڑکی عصمت دری کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے ۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ مرنے سے قبل وہ کس کرب سے چلائی ہوگی ۔ اس نے روتے ہوئے خدا کو بھی پکارا ہوگا ۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر وہ چیخ و پکار کوئی انسان سن لیتا چاہے وہ کیسا بھی ہو تو یقینا وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر اس چیخ و پکار پر اس بچی کی چیخ و پکار پر لبیک ضرور کہتا ۔لیکن ستر ماؤں سےزیادہ پیار کرنے والا خدا محو تماشا رہا ۔ اب یہاں ملحدین نے سوال کیا کہ اگر کوئی خدا سچ میں ہوتا تو اسے ستر ماؤں سےزیادہ پیار کرنے کا دعوی اس وقت سچ ثابت کرنا چاہئے تھا جب آصفہ کرب و الم سے چلائی ہوگی اور اس نے خدا کو بھی پکارا ہوگا لیکن خدا نے ستر ماؤں سےزیادہ پیار کرنے کا دعوی اس وقت سچ ثابت نہیں کیا ۔ اب میری فہم و فراست جو میں نے حضرت علامہ و مولانا غلام مصطفی ازہری صاحب قبلہ اور اپنے دیگر اساتذہ سے حاصل کیا اس کے مطابق اس حوالے سے میرا جواب یہ ہے کہ، ڈیزائن آف نیچر کیا ہے۔ ۱۸۵۷ میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ بشمول غیر مسلم مسلمانوں نے یہ لڑائی جہاد لڑی تھی ۔ اور اللہ تبارک و تعالی جہاد کے فضائل میں لکھتا ہے کہ اللہ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان دس غیر مسلم مقابل ہے۔ لیکن اس کے باوجود ۱۸۵۷ کی جنگ مسلمان ہار گئے ۔ ایسا کیوں ہوا کہ مسلمان ایسے موقع پر شکست کھا گئے؟؟ ما بعد کے نتیجہ سے معلوم ہوا کہ قدرت کو ۱۸۵۷ کی شکست کے سینے سے پاکستان کو نکالنا تھا ۔ سوچئے اگر اس وقت مسلمان جیت جاتے تو برصغیر ایک ہی ملک ہوتا نیز ہندووں اور مسلمانوں میں فیصلہ کرنے والی تیسری طاقت موجود نہ ہوتی جس کی بنا پر بعد میں ہندو مسلم فسادات کا ایسا لا متناہی دور شروع ہوتا کہ شاید ہزاورں سال تک اس بر صغیر پر خون بہنے اور بہانے کے علاوہ کوئی اور کام نہ رہ جاتا ۔۱۸۵۷ کی شکست کے سینے سے اللہ رب العزت نے اس آخری چٹان کو جنم دیا جو آج مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حرمت کی واحد طاقتور ضمانت ہے ۔یہ ڈیزائن آف نیچر ہے۔ وہ یوں کہ قدرت بظاہر خاموش ہے ۔ بظاہر اس کے نام لیوا شکست سے دوچار ہیں جیسے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مکہ مکرمہ بے اباہ سا لگتا ہے ۔ یہ بالکل بظاہر اس کے نام لیوا خدا کے لیوا شکست سے دوچار ہیں لیکن ایک وقت بعد وہی شکست دائمی جیت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ قدرت اس سیارے کے سوشل اسٹریکچر کو زندگی آمیز اور متوازن رکھنے کے لئے کچھ ایسے کام کرتی رہتی ہے جو ایک وقت تک ہمیں ناگوار گزرتے ہیں ۔ وباووں کا پھیلنا بھی انہیں ناگوار کاموں میں سے ایک ہے۔ جو موڈ آف نیچر کو بتاتی ہے ۔ پہلے ہم نے ڈیزائن آف نیچر کو ضبط تحریر لایا اب ہم موڈ آف نیچر کو قلم بند کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کعبہ شریف جہاں سے لوگوں کو حج کے بعد اللہ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے اور جس کی دیدار کے لئے لوگ ایک عرصے سے مال و متاع جمع کرتے ہیں وہ ایک بیماری کے خوف سے خالی کرا دیا گیا ہے اس بار ہمیں حج کے کینسل ہونے کا بھی ملال ہے ۔ مسلمانوں کے اندر ایک طرح کی مایوسی کی سی کیفیت ہے جبکہ ملحدین جنہیں اکثر میں جہلا کا ایک جم غفیر سمجھتا ہوں وہ مسلمانوں پر ایک نظریاتی اور مذہبی اٹیک کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں ۔ حالانکہ وباووں کے حوالے سے اس وقت ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اس صورت حال کو صرف پوزیٹو ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر سین کیا ہے ۔ اس وقت ہم پوری دنیا میں جو کشمکش دیکھ رہے ہیں یہ موڈ آف نیچر ہے ۔ یہ اکثر ڈیزائن آف نیچر کے بعد اپلائی ہوتا ہے اس میں ہوتا یہ ہے کہ قدرت آپ کو براہ راست کچھ بھی عطا نہیں کرتی ۔وہ کچھ اس طرح کھیل رچاتی ہے کہ بری سوچ رکھنے والوں کو سزا ملتی ہے اور بلند سوچ رکھنے والوں کو راہ ہموار ہوتی ہے ۔ آج جو لوگ تمسخر اڑا رہے ہیں کہ کعبہ سے لے کر فلسطین کی دیوار مقدس تک خدا اپنے مذہبیوں کو چھوڑ کر نعوذ بااللہ بھاگ گیا ۔انہیں علم ہونا چاہیے کہ قدرت ہر چند صدیوں بعد بنی نوع انسان کو کچھ نیا ٹاسک دے کر مینٹلی اپ گریڈ کرتی ہے ۔اس عمل میں ایک طرف ہزاورں افراد جاں بحق ہوتےہیں تو دوسری طرف جو رہ جاتےہیں وہ ماضی کے انسان سے کہیں زیادہ جدید ہوتے ہیں ۔میں اپنی اس تحریر میں ثابت بھی کروں گا۔ جیسے کہ ۹ویں صدی سے ۱۲ویں صدی تک یوروپ میں متعدد خطرناک وبائیں پھوٹیں اور ہر بار مساجد، گرجے اور مندر کئی کئی ماہ تک ویران پڑے رہے ۔چونکہ اس وقت مسلمان سائنسی علوم میں دنیا کے امام تھے اس لئے وباووں پر تحقیق اور ان کا توڑ نکالنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری تھی جیسے آج یوروپ دنیا بھر کی زندگی کو محفوظ کرنے کے لئے کام رہا ہے ۔لیبارٹریز کے اندر ویکسینز ایجاد ہو رہی ہیں ۔ اسی تناظر میں اس وقت مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد تھی۔ مسلمان بغداد، تلیتہ، قرطبہ اور غرناطہ میں بلکہ پوری مسلم دنیا میں مسلمانوں نے وباووں پر تحقیق کا کام شروع کیا ۔

اب آپ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ موڈ آف نیچر انسان کو کس طرح اپ گریڈ کرتا ہے؟؟ وبائی تحقیق کے دوران عظیم مسلم سائنسدان ابوبکر الرازی نے مائیکرو کریئچر جو کہ ہماری اس سیارے کا حصہ ہے پہلے وہ دریافت نہیں ہوئے تھے یعنی جراثیم پہلے دریافت نہیں ہوئے تھے ۔تو وبائی تحقیق کے دوران مسلم سائنسدان ابو بکر الرازی نے جراثیم دریافت کیا اور اپنی مشہور زمانہ تصنیف کتاب الحاوی میں لکھا کہ نہایت چھوٹے چھوٹے کیڑے ہماری خوراک، ہوا، پانی اور بوسیدہ چیزوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں ۔بظاہر عام آنکھ سے نظر نہیں آتے اور یہ ہمارے نظام دفاع کو تباہ کرتے ہیں ۔ (آج بھی آپ کتاب الحاوی کھول کر دیکھ لیں یہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں ) ۔۔ وبائی امراض سے بچاؤ کے لئے ہمیں پانی اور خوراک کو انتہائی صاف ستھرا رکھنا ہوگا جبکہ علاج و معالجہ کے نظام کو بھی ایک نئی ترتیب دینا ہوگی ۔ ایک ہی نہر اور کنوئیں کے سب لوگوں کے لئے پانی کا حصول وبائی امراض کی وجہ بن سکتا ہے ۔ دوستوں یوں تاریخ میں پہلی بار واٹر پمپ، واٹر پائپ، زیر زمین واٹر سپلائی ایجاد ہوئی ۔بیماروں کے علاج کے لئے الگ الگ مرض کے ہسپتال اور ان میں الگ الگ اسپیشل روم بنائے گئے ۔ خوراک میں کھدیں ایجاد کر کے جراثیموں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا گیا ۔یوں ایک طرف وباووں سے ہزاروں انسان مر رہے تھے تو دوسری طرف انسان نے اسی انسان نے قدرت کے اس ٹاسک کو / موڈ آف نیچر کو سمجھ کر پوری کائنات کی اشیاء کو دسکور کرتا جا رہا تھا ۔اور ان سے نئی ایجادات کا ایک سلسلہ شروع کر رہا تھا ۔ اور یہاں تک کہ صرف وباووں کی وجہ سے چند صدیوں میں قدیم انسان ایک جدید انسان میں اپ گریڈ ہو چکا تھا ۔قدرت کے لئے کعبے سے کہیں زیادہ انسان کا اہل علم ہونا ضروری ہے ۔ وہ وقت آنے پر کعبہ کو بے آباد کر کے ، کعبہ کے دروازے مسلمانوں پر بند کر کے انہیں کشمیر اور ہندوستان سمیت پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں پر خاموشی سادھنے اور دشمنوں کے ساتھ ڈیلز کرنے کرنے کی سزا بھی دیتا ہے ۔اور آپ میں سے ہم میں سے بے شمار لوگوں کو کائنات کے رموز و اسرار سے بھی روشناس کراتا ہے ۔انسان نے ۹۰ویں فیصد علم حادثات اور مسائل سے سیکھا ہے ۔
وائرس کی اب تک ۷ خطرناک قسمیں دریافت ہو چکی ہیں ۔ انہیں دریافت کرتے کرتے انسان نے مزید ایسی تحقیقات کر لی ہیں اور دیگر چیزیں دریافت کر لی ہیں جو شائد عام حالات میں ممکن ں تھے ۔کرونا وائرس بھی اگر کوئی آرٹیفیشیل بیماری نہیں ہے،وائرس نہیں ہے۔خود سے تیار کردہ نہیں ہے ۔ بطور ہتھیار نہیں ہے تو یہ پھر موڈ آف نیچر کا ایک حصہ ہے ۔جس کے بعد ہم میڈیسن اور مائیکروکرئیچرس کے بارے میں مزید ایڈوانس ہو سکیں گے اور ہماری وقعت میں جو آگے بڑھنے کی رفتار ہے وہ پہلے سے زیادہ بہتر اور تیز ہو سکے گی ۔
دوستوں۔۔۔۔۔! اپنے آخری سطور میں یہ بھی رقم کر دوں کہ قدرت کے جو یہ دو قانون ہیں یہ انسانی آبادی کو اپ گریڈ کرتے ہیں وہ انسانی آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں اور انسانوں کی جغرافیائی سرحدوں کو نئے سرے سے ترتیب بھی دیتے ہیں کیونکہ قدرت کو اس سیارے پر زندگی کو ایک خوبصورت انداز میں قیامت تک باقی رکھنا ہے لیکن ملحدین اسلام مخالف لوگوں کا اعتراض اب بھی باقی ہے جو اس وقت وہ سوشل میڈیا پر پھیلا رہے ہیں کہ مذہب نے سوائے جہالت اور اندھ وسواس کے لوگوں کو کچھ نہیں دیا اور آخر کار لوگ آج خدا کے بجائے لیبارٹریز کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں ۔ ان حضرات سے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ مذاہب میں سے آپ اسلام پر یہ الزام عائد نہیں کر سکتے ۔ یہ بات گو متر پینے والوں پر تو صادق آ سکتی ہے لیکن اسلام کو اس حوالے سے آپ انوالو نہیں کر سکتے ۔ اسلام نے موڈ آف نیچر کو سمجھنے کی پوری ترغیب دی ہے ۔وہ موڈ آف نیچر جو لیبارٹریز کو بالکل ایڈوانس کرتا ہے جو اسپیس روم کو نئے ڈیزائن دیتا ہے جو انسان کو پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ بناتا ہے ۔اسلام نے قدرت کی معرفت کرانے والے وجود کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔اسلام میں ایک عالم کی نیند میں کروٹ زاہد کی پوری رات کی عبادت سے ہزاروں درجہ بہتر ہے ۔ علم مومن کی میراث ہے یہ جہاں سے بھی ملے اسے حاصل کرنا اس کا حق ہے ۔ یہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے ۔اور قرآن کہتا ہے،رب وہی ہے جس نے قلم کے ذریعے دکھایا ۔ اور انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا ۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ خدا خود تو زمین پر آ کر نہیں سکھاتا ۔ وہ اسی طرح سکھاتا ہے ۔اس کا موڈ آف نیچر ہے اس کا ڈیزائن آف نیچر ہے، اے محبوب آپ فرما دیجیئے کہ کیا عالم غیر عالم برابر ہو سکتے ہیں؟؟
دوستوں ۔۔۔۔! اسلام نے تو لاء آف نیچر کو سمجھنے کی پوری تلقین کی ہے ۔ ساتھ ہی علماء کے درجے بھی بتائے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں نے عالم اسے سمجھا جو اچھا قصہ گو ہے ۔جس کی تقریر میں آواز اچھی ہوتی ہے ۔جو شعر شاعری اچھی کر لیتا ہے ۔ جو لوگوں کو بھڑکانا اچھی طرح جانتا ہے ۔ مسلمانوں نے عالم اسے سمجھا جو طبیعیات کے بجائے مابعدالطبیعات کے مسائل کو ہی دنیا کے مسائل سمجھتا ہے ۔ مثلا مسلم علماء صرف " کل قیامت کے دن ۔۔۔۔۔"، " رفع یدین کون کرتا ہے کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ،" فلاں بزرگ اتنے سال تک کنوئیں میں لٹکے۔۔۔۔۔۔۔" میں ہی اکتفا کرتے ہیں ۔جب مسلمانوں کے علماء کا منٹل لیول یہ ہوگا تو مسلمان لاء آف نیچر کو ڈیزائن آف نیچر کو موڈ آف نیچر کو کیسے سمجھنے والے ہو سکتے ہیں ۔کیسے ایسے دماغ ہمارے معاشرے میں پیدا ہو سکتے ہیں؟؟؟ تو پھر مصیبت آنے پر یہودیوں اور غیر مسلموں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتی ۔ کرونا وائرس موڈ آف نیچر ہے ۔ اس میں آپ کی موت بھی ہو سکتی ہے اور اس مصیبت میں ہو سکتا ہے کہ آپ کے قلم سے کچھ ایسی تحقیق دنیا کے سامنے آئے کہ بعد میں ہزاروں سال تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں ۔کیوں کہ قدرت انسانوں کو حادثات سے دوچار کر کے تعلیم دیتی ہے ۔ وہ خالق قرآن میں بھی تو یہی کہتا ہے کہ " اور انسانوں کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا " ۔ تو انسان کیسے سیکھتا ہے، یہ چیز آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
از قلم :- احمد اللہ سعیدی عارفی ( محمداحمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...