غیر مسلموں کے ساتھ ” احسان“
﷽
💞 زیربحث آیت؟ اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُبِالْعَدْلِ 💞
☜📚 اسلام تمام انسانوں کے ساتھ ” احسان “ کی تعلیم دیتا ہے جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، انسان ہونے کے ناطے ان کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنا اسلام کی تعلیمات میں داخل ہے؛ چنانچہ
◆☜ الف:—— اگر کوئی رشتہ دار غیر مسلم ہو تو اس کے ساتھ حسن سلوک اسی طرح کیا جائے گا جیسا کہ مسلمان رشتہ داروں کے ساتھ کیا جاتاہے۔
🌸 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دی تو صاف طور پر یہ ارشاد فرمایا 🌸
📚 يَابَنِيْ كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ انْقِذُوْا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ...... غَيْرَأَنَّ لَكُمْ رَحِمَاً سَأَبُلُّهَا بِبِلاَ لِهَا 📚
[ مسلم شریف ۱/ ۱۱۴ رقم ۲۰۴]
◆☜ اے کعب بن لؤی کے خاندان والو! تم خود اپنے کو جہنم سے بچانے کی فکر کرو (بعد ازاں آپ نے دیگر افرادِ خاندان کا نام لے کر یہی بات کہی، پھر فرمایا) مگر تم سے رشتہ داری کا تعلق ہے، تو اس کو میں ترو تازہ رکھوں گا۔
◆☜ اور صحیح روایات میں ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی والدہ، قیلہ بنت عبدالعزیز، صلح حدیبیہ کے بعد مشرکہ ہونے کی حالت میں مدینہ منورہ آئیں، وہ کچھ مالی تعاون چاہتی تھیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مسئلہ پوچھا کہ: کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ تو پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: ہاں! اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو“۔
[ بخاری شریف ۱/ ۳۵۷ حدیث ۲۶۲۰]
◆☜ اور بخاری شریف میں ” باب صلۃ الأخ المشرک “ قائم کر کے یہ روایت ذکر کی گئی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا عطا کردہ ایک ریشمی جوڑا حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق اپنے رضاعی بھائی ”عثمان بن حکیم “ کومکہ بھیجا تھا، جو اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے۔
[ بخاری شریف ۲/ ۸۸۴ حدیث ۵۹۸۱]
◆☜ اس سے معلوم ہواکہ رشتہ داری کے اعتبار سے حسن سلوک کا حکم عام ہے، مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
◆☜ ب:—— اسی طرح اگر پڑوسی غیر مسلم ہو تو پڑوسی ہونے کے اعتبار سے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ضروری ہوگا۔
◆☜ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
📚 وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ 📚
[ سورۃ النساء ۳۶]
◆☜ یعنی اجنبی پڑوسی کے ساتھ احسان کرو جس میں غیر مسلم پڑوسی بھی شامل ہے۔
[ ابن کثیر مکمل ۳۲۳]
◆☜ اور روایات سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔
◆☜ ج:—— اگر کوئی غیرمسلم مظلوم ہو تو اس کا حق دلانے میں اس کی مدد کرنا، عین اسلامی تعلیم ہے، خواہ اس پر ظلم کرنے والا مسلمان ہو یا غیرمسلم۔ چنانچہ دور نبوت میں کئی ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مقدمات میں غیرمسلم کے حق میں فیصلے دئے۔
◆☜ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام محض مذہب کی بنیاد پر خواہ مخواہ کسی انسان کو ستانے یا اذیت دینے کا قائل نہیں، اور غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے مطلقاً منع نہیں کرتا، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے
📚 لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ 📚
[ سورة الممتحنة ۸]
◆☜ اللہ تعالٰی تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے، اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ تعالٰی انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
◆☜ اس آیت کے مصداق وہ غیرمسلم ہیں جن کا مسلمانوں سے کوئی نزاع نہیں ہے، نہ وہ دین کے درمیان رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ مسلمانوں کو ان سے کوئی خظرہ ہے، تو ایسے غیرمسلموں کے ساتھ انسانی ناطہ سے حسن سلوک کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔
◆☜ البتہ وہ غیرمسلم جو مسلمانوں سے بغض وعداوت رکھتے ہیں اور دین پر عمل کرنے میں رخنہ ڈالتے ہیں اور مسلمانوں کی اذیت رسانی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، تو ایسے دشمنوں کے ساتھ روابط کی اسلام واقعی اجازت نہیں دیتا، اس لئے کہ ان سے میل جول رکھنے میں قومی وملی نقصانات کا اندیشہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
📚 اِنَّمَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ 📚
[ سورة الممتحنة ۹]
◆☜ صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے اللہ تعالٰی تم کو منع کرتاہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑتے ہوں، اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالاہو، اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہو، اور جو شخص ایسوں سے دوستی کرے گا سو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔
✧═════•❁❀❁•═════✧

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں