دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔! مولانا مقصود عالم سعيدی صاحب جامعہ عارفیہ کے ایک ماہر استاد ہیں، مذہب اسلام کی دعوت و تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں، ساتھ ہی جامعہ ہذا کے طلباء کی تنظیم "جمعیت الطلبہ" کے نگراں کی حیثیت سے بھی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔مولانا موصوف راقم کے کلاس (سابعہ )میں " المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم" المعروف بہ مسلم شریف کا درس بھی دیتے ہیں ۔
آج جب مولانا موصوف صاحب کلاس میں تشریف لائے تو طلباء نے ان سے گزارش کی کہ آپ کتاب کا درس نہ دے کر ہمارے چند سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں ۔ حضرت نے ہم لوگوں کی عرضی قبول کی اور سوال کرنے کو کہا ۔
ہمارے کلاس ساتھی جناب محسن صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ علماء کے نزدیک جب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کے مابین آج امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنواؤں کی یاد منانے کا جو غیر مناسب اور نازیبا مراسم مروج ہیں، اسلام میں اس کی ممانعت ہے ۔پھر وہ کون سے اسباب و ذرائع ہیں جن کی بنا پر علماء عوام الناس کو ان اعمال قبیحہ سے باز رہنے کی ہدایت کرنے سے گریز کرتے ہیں ؟
اس پر مولانا صاحب نے جواب دیا کہ ایک طویل مدت سے علماء اس اس سلسلے میں اپنی تصانیف میں فقط اس کے خلاف چند باتیں لکھ کر بس اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعے عوام الناس کو ان چیزوں سے نہ روک کر اس میں تساہلی سے کام لیا ہے ۔ اب ایک طویل عرصہ سے لوگ یہ سب کرتے آ رہے ہیں تو یک بارگی ان کو اس سے روکنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر آپ ان دنوں نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کے خلاف کوئی بات بیان کریں گے تو عوام آپ کے خلاف ہو جائے گی اور اگر اس تعلق سے آپ نے ذرا سی بھی شدت برتی تو یہ عوام الناس آپ سے برسر پیکار ہو جائے گی ۔
انہوں نے اس فلسفے کو اپنے تجربے کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہا کہ شادی بیاہ میں ڈی جے وغیرہ بجانا ناچ گانا کرنا ایک ناجائز اور حرام عمل ہے۔ ہمارے بعض احباب نے شادی وغیرہ کے موقع پر اس حرام اور قبیح عمل کے سد باب کے لئے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے عین شادی کے دن سے ۱۵ ۲۰ روز پہلے سے اہل خانہ کو سمجھانے کی کوشش کی، اس کے منفی اثرات اور دنیاوی واخروی نقصان بتاتے ہوئے ان کی ذہن سازی کی ۔ بالآخر ان میں سے بیشتر حضرات نے ان کی بات مانی ، شادی میں ڈی جے اور بینڈ کی شرکت سے پپرہیز کیا ۔ اس کے برعکس بعض نا عاقبت اندیش مولوی حضرات نے اس سلسلے میں فراست مندی سے گریز کرتے ہوئے عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا اور ڈی جے کی شمولیت کی بنا پر عین وقت نکاح پڑھانے سے انکار کیا ۔ اس کا منفی نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ ان لوگوں اس مولانا صاحب کو وہاں سے کوچ کرنے کے لئے کہا اور دوسرے مولانا کو مزید پیسے دے کر نکاح پڑھوا لیا ۔
کسی بھی سلسلے میں اگر عوام کو کسی ضروری امر کی جانب ان کی توجہات کو مرکوز کرانا ہو، یا کسی حرام و غیر دینی چیز سے ان کی دلچسپی ختم کرنی ہو تو اس کے لئے آپ کو عین وقت سے کافی پہلے ہی آہستہ آہستہ اس دینی اور ضروری امر کی اہمیت کو ان کے اذہان میں اجاگر کرنا ہوگا یا اس حرام اور غیر دینی امر کے نقصانات کو لوگوں کے گوش گزار کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ میں اتارنا پڑے گا تب ہی لوگوں کو بات سمجھ میں آئے گی ۔ اگر لوگ دعوت و تبلیغ اور مسلم معاشرے میں مروجہ غیر شرعی امور کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہ ایک بہترین طریقہ ہے ۔ مولانا موصوف صاحب نے اس تعلق سے اور بھی قیمتی باتیں کیں تو سبق آموز تھیں ۔
از :- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ آلہ آباد
آج جب مولانا موصوف صاحب کلاس میں تشریف لائے تو طلباء نے ان سے گزارش کی کہ آپ کتاب کا درس نہ دے کر ہمارے چند سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں ۔ حضرت نے ہم لوگوں کی عرضی قبول کی اور سوال کرنے کو کہا ۔
ہمارے کلاس ساتھی جناب محسن صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ علماء کے نزدیک جب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کے مابین آج امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنواؤں کی یاد منانے کا جو غیر مناسب اور نازیبا مراسم مروج ہیں، اسلام میں اس کی ممانعت ہے ۔پھر وہ کون سے اسباب و ذرائع ہیں جن کی بنا پر علماء عوام الناس کو ان اعمال قبیحہ سے باز رہنے کی ہدایت کرنے سے گریز کرتے ہیں ؟
اس پر مولانا صاحب نے جواب دیا کہ ایک طویل مدت سے علماء اس اس سلسلے میں اپنی تصانیف میں فقط اس کے خلاف چند باتیں لکھ کر بس اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعے عوام الناس کو ان چیزوں سے نہ روک کر اس میں تساہلی سے کام لیا ہے ۔ اب ایک طویل عرصہ سے لوگ یہ سب کرتے آ رہے ہیں تو یک بارگی ان کو اس سے روکنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر آپ ان دنوں نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کے خلاف کوئی بات بیان کریں گے تو عوام آپ کے خلاف ہو جائے گی اور اگر اس تعلق سے آپ نے ذرا سی بھی شدت برتی تو یہ عوام الناس آپ سے برسر پیکار ہو جائے گی ۔
انہوں نے اس فلسفے کو اپنے تجربے کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہا کہ شادی بیاہ میں ڈی جے وغیرہ بجانا ناچ گانا کرنا ایک ناجائز اور حرام عمل ہے۔ ہمارے بعض احباب نے شادی وغیرہ کے موقع پر اس حرام اور قبیح عمل کے سد باب کے لئے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے عین شادی کے دن سے ۱۵ ۲۰ روز پہلے سے اہل خانہ کو سمجھانے کی کوشش کی، اس کے منفی اثرات اور دنیاوی واخروی نقصان بتاتے ہوئے ان کی ذہن سازی کی ۔ بالآخر ان میں سے بیشتر حضرات نے ان کی بات مانی ، شادی میں ڈی جے اور بینڈ کی شرکت سے پپرہیز کیا ۔ اس کے برعکس بعض نا عاقبت اندیش مولوی حضرات نے اس سلسلے میں فراست مندی سے گریز کرتے ہوئے عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا اور ڈی جے کی شمولیت کی بنا پر عین وقت نکاح پڑھانے سے انکار کیا ۔ اس کا منفی نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ ان لوگوں اس مولانا صاحب کو وہاں سے کوچ کرنے کے لئے کہا اور دوسرے مولانا کو مزید پیسے دے کر نکاح پڑھوا لیا ۔
کسی بھی سلسلے میں اگر عوام کو کسی ضروری امر کی جانب ان کی توجہات کو مرکوز کرانا ہو، یا کسی حرام و غیر دینی چیز سے ان کی دلچسپی ختم کرنی ہو تو اس کے لئے آپ کو عین وقت سے کافی پہلے ہی آہستہ آہستہ اس دینی اور ضروری امر کی اہمیت کو ان کے اذہان میں اجاگر کرنا ہوگا یا اس حرام اور غیر دینی امر کے نقصانات کو لوگوں کے گوش گزار کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ میں اتارنا پڑے گا تب ہی لوگوں کو بات سمجھ میں آئے گی ۔ اگر لوگ دعوت و تبلیغ اور مسلم معاشرے میں مروجہ غیر شرعی امور کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہ ایک بہترین طریقہ ہے ۔ مولانا موصوف صاحب نے اس تعلق سے اور بھی قیمتی باتیں کیں تو سبق آموز تھیں ۔
از :- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ آلہ آباد

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں