منگل، 27 جون، 2023

افسوس صد افسوس

 دوستوں۔۔۔۔۔!!!!! محافل و مجالس کا انعقاد باعث ثواب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی  دعوت و تبلیغ ، وعظ و نصیحت یا قوم مسلم تک کوئی اہم پیغام پہنچانے کے لیے  اس کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔


      ماضی قریب بہ بعید  تک یہی نہج قائم رہا لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دور حاضر کے محفلوں اور مجلسوں میں مذکورہ بالا مقاصد کا فقدان ہے۔

ماضی میں علماء کی اکثریت بے لوث دین کی دعوت و تبلیغ اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہتی تھی چاہے وہ علاقائی سطح کے ہوں،ملکی سطح کے یا پھر عالمی سطح کے، حتی الوسع اکثر علماء دین کے لیے اپنی توانائی صرف کرتے تھے۔قوم مسلم کو نیا نظریہ دیتے تھے۔ ہر آن  ان کی ایک نئی شان ہوتی تھی ۔  لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے علماء میں وہ بات نہ رہی۔ (الا ما شاء اللہ)

موجودہ دور کے علماء و پیران عظام سے اسلاف کا اگر تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ماضی کے علمائے کرام اور بزرگان دین نے مذہب  اسلام کی دعوت و تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اپنے روزینہ کا انتظام بقدر ضرورت خود کیا یا پھر اسلامی حکومت انہیں بقدر ضرورت ہی وظیفہ دیا کرتی  تھی ۔

تاریخ کے کسی بھی کتاب میں ایسا کوئی واقعہ درج نہیں ہے کہ قوم مسلم کو دین سمجھانے،کوئی نیا نظریہ دینے،یا وعظ و نصیحت کے لیے خلفائے راشدین،ائمہ اربعہ ، فقہائے کرام و محدثین عظام ، حضرت ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ ،حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت امام غزالی قدس سرہ ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری قدس سرہ ،حضرت خواجہ نظام الدین قدس سرہ ، حضرت مخدوم جہانگیر سمنانی قدس سرہ، حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ وغیرہ اور ان ادوار کے دیگر علمائے کرام و بزرگان دین نے اسلامی حکومت کی جانب سے طے شدہ وظیفے کے علاوہ یا پھر انہیں جو تحائف پیش کیے جائیں اس کے علاوہ کسی رقم کی مانگ کی ہو ۔

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج معاملہ اس کے برخلاف ہے۔ گنے چنے پیران عظام اور علمائے کرام ہی آپ کو ایسے ملیں گے کہ وہ آج بھی دین کا کام اپنے اسلاف کی روش پر قائم رہتے ہوئے بے لوث انجام دے رہے ہیں ۔

ایک تو آج کے علماء میں دین کے تفقہ کا فقدان ہے۔ اوپر سے ان کے نخرے اور مطالبات ۔ اللہ خیر کرے ۔ ایسے کیسے مسلمانوں میں دینی بیداری آئے گی؟؟؟؟

مسلمانوں کے مابین دعوت و تبلیغ اور دین کا کوئی اہم پیغام پہنچانے کا  یا پھر انہیں دین سکھانے کا بہترین اور مؤثر ذریعہ جمعہ کے  دن خطاب اور گاؤں میں منعقد ہونے والی میلاد کی محفلیں یا کوئی بھی پروگرام ہیں۔ لیکن انتہائی خیبت و خسرانی والی بات یہ ہے کہ ایسے اہم موقع  پر وہاں کے امام صاحب یا پھر علاقائی علماء عوام کی امیدوں پر کھڑا نہیں اترتے۔ (الا ما شاء اللہ)

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ" بات اگرچہ بہت عمدہ ہو لیکن بار بار اس کے تذکرے سے سامع کے نزدیک اس کی اہمیت کم ہوتی چلی جاتی ہے" ۔ ہمارے علاقائی علماء کی حالت کچھ ایسی ہے کہ مطالعہ کی کمی کی بنا پر اپنی تقریروں میں وہ واقعات کی تکرار کرتے ہیں۔ قران و حدیث سے براہ راست دلیل نہ دے کر ادھر ادھر کی غیر مؤثر باتیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام ذہنی خلجان کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر وہ خطیب کی جانب سے توجہ کہیں اور مبذول کر لیتا ہے ۔

آج  گاؤں میں ایک جگہ میلاد کی محفل  منعقد تھی ۔ ہمارے گاؤں کے ایک عالم دین کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا ۔ موصوف ادھا گھنٹہ تقریر کیے جس میں انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب،حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا صفا و مروہ کے مابین چکر لگانا،حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے تابع وہ فرمانبردار ہونا بتایا۔  علاوہ ازیں  اسی سے متعلق دو چار باتیں انہوں نے مزید کیں۔  بلا شبہ مذکورہ بالا سبھی باتیں اہمیت کی متحمل ہیں۔ غور طلب یہ ہے کہ یہ باتیں اکثر لوگ تقریبا 20 سال سے سنتے آ رہے ہیں۔ یہ ہم معلومات تو آپ نے انہیں بارہا دیا ہے ۔ تو کیا آپ اپنی پوری زندگی بھر ، جب کبھی بھی آپ کو ذی الحجہ کے مہینے میں خطاب کرنے کا موقع دیا جائے گا تو کیا آپ صرف انہی واقعات کو بیان کیجئے گا؟؟؟؟؟  کیا اس مہینے میں عوام الناس کے لیے کچھ اور نہیں ہے اپ کے پاس؟

انہی وجوہات کی بنا پر آج قوم مسلم دین سے بیزار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ قوم پیاسی ہے لیکن علماء کے پاس قوم مسلم کی پیاس بجھانے کے لیے مواد نہیں۔

راقم :- احمد اللہ سعیدی عارفی

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...