بدھ، 30 دسمبر، 2020

ایک تبصرہ

 


دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔! جلسہ وجلوس سے ہم سنیوں کا بالکل ایسا ہی تعلق ہو گیا ہے جیسا رشتہ "ہیر" کا "رانجھا" کے ساتھ، "رومیو" کا "جولیٹ" کے ساتھ، "لیلیٰ" کا "مجنوں" کے ساتھ یا پھر  جو رشتہ مودی جی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ کے  ساتھ ہے ، کہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی قریہ یا کسی نہ کسی محلے میں جلسہ و جلوس کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر جلسہ و جلوس ایسے ہوتے ہیں جن کے منتظمین کے لبوں پر بھولی بھالی سنی عوام کے تیین اگرچہ ہمدردی کے بول ہوتے ہیں لیکن اس کے پس پردہ ان کے قلوب میں ذاتی مفادات کے کشکول سجے ہوتے ہیں ۔ دنیاوی جاہ و حشمت، حصولِ دولت و ثروت، نام و نمود اور دیگر عزائم و مقاصد کی برآوری کی غرض سے  آۓ دن اس نوعیت کی اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ شب(٢٨/١٢/٢٠٢٠) راقم کے گاؤں (سملیہ) کے مشرقی نواح میں بھی عزیزان حضرت علامہ منظور عالم و حضرت حافظ و قاری صدام صاحبان نے بھی ایک اجلاس منعقد کیا جس میں متعدد علاقائی علمائے کرام و نعت خواں حضرات اور بالخصوص حضرت علامہ الحاج الشاہ منہاج ہاشمی صاحب قبلہ، پھول گلی ممبی کو مدعو تھے۔

                    یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس قسم کے جلسے و جلوس میں تمام تر بے راہ رویاں سر انجام پاتی  ہیں۔ بے حیائی شباب پر ہوتی ہے۔ بے غیرت اور نا عاقبت اندیش والدین ان جلسہ و جلوس میں اپنی بیٹی اور بہوؤں کی شرکت سے ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔بیشتر جلسوں میں پردے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا ہے۔ مزید طرفہ تماشا یہ کہ اناؤنسر اور نعت خواں حضرات بے غیرتی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے مستورات سے داد و تحسین بھی حاصل کرتے ہیں۔  (الا ما شاء اللہ)

               محفل کا آغاز ہو چکا تھا۔ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد راقم مسجد سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک آواز سماعت سے ٹکرائی، اناؤنسر یا پھرکوئی مقرر یہ کہہ رہا تھا کہ"اگر کوئی شخص ایک بار سبحان اللہ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی جنت میں اس کے لئے محل تیار فرما دیتا ہے"۔ (حوالہ درکار) اتنا سنتے ہی راقم نےامام صاحب (حضرت علامہ نذر الاسلام صاحب) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج بد عملی، بے غیرتی اور بے دینی کے بحر بیکراں میں ڈوبی قوم کے سامنے اس نوعیت کے تبشیری کلمات انتہائی نامناسب ہیں۔

    عشائیہ سے فارغ ہونے کے بعد امام صاحب کی معیت میں راقم الحروف بھی جلسہ گاہ کی سمت قدم رنجاں ہوا۔ مجلس میں پہنچتے ہی عورتوں کے لیے پردے کا انتظام نہ دیکھ کر بہت ہی کبیدہ خاطر ہوا، یہ خلاف توقع تھا کیونکہ حضرت علامہ منظور عالم و حضرت حافظ و قاری صدام صاحبان راقم الحروف کی نظر میں ایک باشعور شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قریبی گاؤں "کسیہ" کے حضرت علامہ توقیر رضا صاحب اپنی مکمل توانائی صرف کرتے ہوئے پوری چیخ و پکار کے ساتھ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کے مختلف النوع کرامات بیان کر رہے تھے۔موصوف نے غوث پاک کی بعض کرامتیں ایسی بتائیں جو راقم نے کبھی نہ کسی معتبر عالم دین سے سنا اور نہ ہی کبھی کسی کتاب میں پڑھا۔ راقم نے بر وقت امام صاحب سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ آج کے اس پرفتن دور میں غوث پاک کے کرامات بیان کرنے کے بجائے ان کی تعلیمات کو  اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

            حیرت کی انتہا اس وقت بام عروج تک رسائی حاصل کر گئی جب اچانک ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر مائک سے یہ اعلان کیا کہ"آپ لوگ ہرگز ویڈیو نہ بنائیں کیوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جہنم میں سب سے زیادہ عذاب ویڈیو بنانے والوں اور فوٹو کھینچنے والوں کو ہوگا"۔ راقم الحروف کو اس پر انتہائی حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ ثالثہ رابعہ تک مدرسہ میں پلنے والے، علوم حدیث اور اصول فقہ سے ناواقف، بنا پیمنٹ کے آئی ٹی سیل کا کام کرنے والے یہ حضرات آخر کس جرات سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں "ادراج" کرتے ہیں!!!!

       دیگر مصروفیات کی بنا پر راقم الحروف جلسہ و جلوس میں حاضری سے قدرے کتراتا ہے لیکن پہلی دفعہ حضرت علامہ الحاج الشاہ منہاج ہاشمی صاحب کے رو برو ہونے کا موقع میسر ہونے پر جلسہ ہذا میں حاضری کو خاصے ترجیح دیا۔ محفل  میں تشریف آوری کے فوراً بعد ہی موصوف نے عورتوں کی چہ میگوئیاں اور شور و غوغہ سے سخت برہم ہو کر اور ان کے لئے پردے کا انتظام کرا کر راقم الحروف کو قدرے متاثر کیا۔ ذرائع سے یہ خبر موصول ہوئی تھی کہ موصوف "أولئك آبایٔی" کے پرستار ہیں لیکن اثناءے خطاب موصوف نے "رضوی اشرفی اخوت و بھائی چارگی"اور سبھی مسلمانوں کو مل جل کر رہنے کی تلقین کرکے اپنے تیین وثوق میں قدرے اضافہ کیا۔ موصوف کے حوالے سے بعض دیگر حضرات بشمول راقم کے ذہن میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ موصوف جب بھی یہاں تشریف لاتے ہیں  تو یہاں کسی مقیم کے گھر کو زینت نہ بخش کر قیام کے لیے ہوٹلوں ہی کو کیوں ترجیح دیتے ہیں ؟ اس غلط فہمی کا ازالہ موصوف نے دوران تقریر یہ کہہ کر کیا کہ "یہاں کہیں ٹھہرنے پرگھر کی عورتوں کی جانب سے بے پردگی کا مسئلہ رہتا ہے اسی لیے ہوٹلوں میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں" ۔اس کے علاوہ موصوف نے اور ہی باتیں کیں۔ بعد ازاں موصوف نے اسی مقام پر اپنی خانقاہ، مسجد اور مدرسے کی بنیاد رکھی۔
اخیر میں تقسیم نیاز کے وقت منتظمین حضرات  اور عوام الناس نے اپنی جس خصلت سے راقم الحروف کو متعارف  کروایا وہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔امید ہے کہ آئندہ منتظمین حضرات اس میں بہتری کی سعی کریں گے۔  واللہ الموفق

از:- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراوان کوشامبی الہ آباد یوپی۔




-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...