جمعہ، 25 ستمبر، 2020

تبصرہ

 


کچوچھہ مقدسہ اور بریلی شریف کے فیوض و برکات سے سرشار قریہ سلمیہ جو کہ بہار و بنگال کا سنگم ہے،اس گاؤں کا  80 فیصد حصہ مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناجپور میں واقع ہے جبکہ بیس فیصدی، صوبہ بہار کے ضلع پورنیہ میں آباد ہے۔ آج کل اس گاؤں میں جلسوں اور کانفرنسوں کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ۔ گاؤں کے ہر مرحلہ والے جلسے جلوس کی مقابلہ آرائی میں اپنی تمام تر توانائی صرف کرتے نظر آ رہے ہیں۔چند روز قبل سنی جامع مسجد والے محلے میں بھی کانفرنس (اشرف و رضا کانفرنس )کا انعقاد کیا گیا۔‏

ویسے تو دیگر مصروفیات کی بنا پر راقم ان کانفرنسوں میں شرکت سے قاصر رہتا ہے لیکن بعض اعزہ کی دعوت پر آخرالذکر کانفرنس میں اپنی حاضری معطل نہ کر سکا۔ راقم کے مطابق ان کانفرنسوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ منتظمین حضرات اپنی شخصیت کی نمائش، اثر ورسوخ کی حوس اور اپنی انا کی تسکین کے خاطر ان جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں  ۔کانفرنسوں کا مقصد، اصلاح معاشرہ ہے نہ کہ شہرت کی حصولیابی۔ اس نوعیت کے جتنے بھی کانفرنس ہوتے ہیں ان  سے قوم کا کچھ   بھی اخروی نفع نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات تو یہ دیکھا گیا ہے کہ مستقبل فجر کی نماز پڑھنے والے بعض اشخاص کی نماز فجر  اس دن صرف اس لیے قضا جاتی ہے کیونکہ وہ افراد رات بھر جلسے میں تھے۔ ان کانفرنسوں میں جو مقررین حاضر ہوتے ہیں وہ سوائے چند گھسے پٹے عنوانات کے ، کسی اہم موضوع پر گفتگو نہیں کرتے،نہ ہی کوئی نئی تحقیق پیش کرتے ہیں،ان میں سے بیشتر خطباء اپنی پوری توانائی دین محمدی کی دعوت و تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے بجائے مسلک و مشرب پرستی میں ضائع کرتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)۔ اگر چہ  ان مقررین کے لبوں پے  قوم  ملت کے تیین ہمدردی کے بول ہوتے ہیں لیکن ان کے قلوب میں ذاتی مفادات کے کشکول سجے ہوئے ہوتے ہیں۔(اللہ ہم سب کو ہدایت دے)۔

اگر اس گاؤں میں ہونے والے اب تک کے تمام تر کانفرنسوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو آخرالذکر کانفرنس سب سے زیادہ کامیاب رہا۔  جن مقررین کو مدعو کیا گیا تھا انہوں نے کافی حد تک اصلاحی خطابات کیے لیکن اس میں کوئی دوراءے نہیں کہ بعض نعت خواں اپنی عادت سے باز نہ آ سکے۔

ہمارے گاؤں کے حضرت مولانا عبدالباری صاحب  نے "وانذر عشيرتك الاقربين" کے حوالے  سے بہت اچھی گفتگو کی،ان کے بعد خطاب کے لیے حضرت مفتی محبوب صاحب قبلہ کو مدعو کیا گیا،انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔  اپنی اصلاحی گفتگو کے دوران موصوف نے ہمیں بتایا کہ اس علاقے میں شجر اسلام کی آبپاشی میں خانوادہ اشرفیہ کے ماہ و نجوم نے انتھک محنت کی ہے جس کا نتیجہ آج اس علاقے میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس علاقے میں مدارس کی تعمیرات کے حوالے حضرت شیخ العالم اور علامہ مشتاق احمد نظامی علیھما الرحمٰن کی جو خدمت ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی باتیں کی جو نصیحت آمیز تھیں۔بعد ازاں راقم مولانا رضوان صاحب کی معیت میں حضرت مفتی محبوب صاحب کو ان کے دولت خانہ تک  پہنچانے میں مصروف ہو گیا۔

حضرت مفتی موصوف صاحب کی تشریف آوری کے بعد اسٹیج پر جانے سے قبل تقریبا دو ڈھائی گھنٹے راقم کی ان سے گفتگو ہوئی۔ اسی اثنا میں  مفتی موصوف صاحب نے قوم وملت کے متعدد مسائل پر لب کشائی فرمائی اور ان سے نجات کی تجویز بھی بیان فرمایا۔حضرت مفتی موصوف صاحب نے فرمایا کہ آج کل جلسے جلوس کے لئے عشاء کے بعد کا وقت انتہائی غیر مناسب ہے، عوام میں سے بیشتر حضرات 10:00 بجے سے لے کر 12:00 بجے تک کا وقت ہی برداشت کر پاتے ہیں کیونکہ صبح اٹھ کر انہیں اپنے کاروبار سے منسلک ہونا پڑتا ہے ،اسی بنا پر وہ 12بجے کے بعد پروگرام کو با دل ناخواستہ خیر باد کہہ جاتےہیں جبکہ اسی اہم وقت میں نعت خواں حضرات اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوئے سامعین کو ورزش کرا رہے ہوتے ہیں اور جب عوام ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہو کر بستر استراحت  پر جانے کا متقاضی ہوتے ہوئے محفل سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو منتظمین حضرات مقررین کو مدعو کرتے ہیں،اب ایسے میں صرف وہی ضعیف حضرات بچتے ہیں جو سدھرے سدھارے ہوئے ہوتے ہیں تو پھر اس وقت کسی مقرر کا چیخنا چلانا بے سود ثابت ہوتا ہے ۔
موصوف نے مزید فرمایا کہ آج کل دیگر فرقے کے لوگ یا سیاسی رہنما حضرات دن میں ہی اپنے جلسے جلوس کو انجام دیتے ہیں۔اب صرف سنی لوگ ہی ہیں جو رات میں کانفرنس کرنا پسند کرتے ہیں،جبکہ بقیہ تمام تر سیاسی پروگرام و دیگر جلسے جلوس دن ہی میں انجام پاتے ہیں۔اس حوالے سے علمائے اہل سنت کو غور و فکر کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی دیگر مسائل پر گفتگو کی جنہیں یہاں رقم طراز کرنا ناگزیر ہے۔
#احمداللہ_سعیدی_عارفی(محمداحمدرضا)

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...