پیر، 15 جون، 2020



-:اسلاموفوبیا:-                  
اسلاموفوبیا" کے معنی ہیں " ڈر جانا"۔(ویکیپیڈیا)
       اسلامو فوبیا سے خاص طور پر مغربی دنیا اور عام طور پر پوری دنیا میں ’ اسلامی تہذیب سے ڈرنا‘ اور ’ مسلم گروہوں سے ہراساں ہونا ‘ مراد لیا جاتا ہے۔  اسلام کے خلاف کرہ ارض کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے تیٔین بیشتر مسائل میں انہیں مشتعل جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے اذہان و قلوب میں اسلام کا مختلف النوع رخ گھر کر جاتا ہے اسی کو "اسلاموفوبیا"  سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس اصطلاح کاآغاز ۱۹۷۶ء میں ہوا لیکن بیسویں صدی کے ۸۰ اور ۹۰ کی ابتدائی دہائیوں میں یہ انتہائی  کم مستعمل رہا۔۱۱/ ستمبر  ۲۰۰۱ء کو اس وقت کی عالمی سطح پر سب سے بلند عمارت "ورلڈ ٹریڈ سینٹر "پر ڈرامائی حملوں کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔
  
اس حوالے سے ایک برطانوی مصنف "رونیمیڈ ٹروسٹ" کا نظریہ ویکیپیڈیا میں درج ہے ۔   رونیمیڈ ٹروسٹ نے " Islamophobia: A Challenge for Us All" کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں اس لفظ کی تعریف بیان کی کہ اسلامو فوبیا یعنی اسلام سے بے پناہ خوف اور نتیجتا ایک ایسا ڈر جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے اور فرانسیسی مصنفین کے نزدیک اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے مالیہ ایمیلی نے "ثقافت اور وحشیت" کے عنوان پر مقالہ میں کیا جس کو 1994 ء میں فرانس کے ایک اخبار لیمنڈا نے شائع کیا۔ جس میں اس نے اسلامو فوبیا کی صنف رواں کے تعلق سے بیان کیا۔ اور 1998 ء میں صہیب بن الشیخ نے اپنی کتابMarianne et le Prophète(ص:171)میں اس لفظ کو ایک باب کے عنوان کے طور پر لیا۔ عالمی پیمانہ پر اس لفظ کا استعمال خوب ہوا خصوصا 11 ستمر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد روایت پسند اسلامی جماعتوں کی طرف سے رد عمل کے طور پر اس لفظ کو خوب فروغ دیا گیا۔
اس لفظ کو فروغ حاصل ہونے میں چند نام نہاد اسلامی جماعتوں کا بھی ہاتھ ہے جنہوں نے دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ اسلام دہشت گردی نہیں سکھاتا اس لفظ کو مزید استعمال کیا۔ نتیجتاً یہ لفظ پوری روئے زمین  پر استعمال ہونے لگا ۔
ما(اسلام ہراسی)  ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘  کا مرکب ہے۔ "فوبیا
میں نے اس حوالے سے جب برطانوی رائٹر رونیمیڈ ٹروسٹ کے موقف کا مکمل جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کا موقف سراسر بے بنیاد ہے ۔ تاریخی پس منظر اور اسلامی روایات کے پیش نظر  ان کی شخصیت  پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ ان کے موقف کی مذمت بیشتر یورپی اور امریکی مصنفین نے بھی کیا ۔(طوالت کے پیش نظر میں نے ان کے موقف کو ضبط تحریر نہیں لایا۔ان کا مستقبل ایک مضمون ہے اس حوالے سے جو اردو میں بھی دستیاب ہیں اگر کوئی خواہا ہوں تو رابطہ کریں).
               اسلام، نیشن اسٹیٹ کے نظریے کے برعکس ایک کُل ارضی امت کا نام ہے جس سے مغربی تہذیب کو خطرہ ہے۔ مغرب اسلام کو اپنے سودی بینکاری نظام اور مادر پدر آزاد معاشرے کے لئے بھی خطرہ تصور کرتا ہے۔ لہذا یہ طاغوتی طاقتیں جہاں اسلامی نظام کو پنپتا دیکھتی ہیں، پوری قوت سے اس ملک پر حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو مغربی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنا ہو۔ افغانستان پر حملے کا جواز گھڑنا اسی سلسلے میں تھا. اس کے بعد عراق اور پھر 2010ء میں افریقہ کے ملک مالی پر فرانس کے ذریعے حملہ کروانا اسی لئے تھا کہ %90 مسلمان آبادی والے اس ملک میں عوام نے اسلام کے نفاذ کی حمایت کر دی تھی۔
اسلاموفوبیا کی اصطلاح مسلمانوں کی بجائے خود غیر مسلموں کی دی ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی تسلیم شدہ بات ہے ہے کہ اس لفظ کی نشر و اشاعت میں میں چند نام نہاد مسلم جماعتوں کا بھی ہاتھ ہے
فوبیا ظاہری طور پر کسی بھی قسم کے ذہنی عارضے میں مبتلا شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا اسلام کے خلاف ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی نفرت کے سبب انھوں نے خود اسے یہ نام دیا۔
مغرب میں مسلمانوں کے ساتھ ناصرف نوکریوں میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے بلکہ تعلیمی اور معاشی ترقی کے مواقع بھی انتہائی کم ہیں۔ نیز مسلمانوں پر مغرب میں اپنی ثقافتی اور شخصی اظہار کے حوالے سے مزید سے مزید قدغنیں لگائی گئیں۔(برسلز کانفرنس کے بعد اس میں قدرے کمی آئی ہے )مغرب نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی اسلاموفوبیا کے لیے استعمال کیا جنھوں نے دینِ اسلام سے بغاوت کی.(سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین،طارق فتح جیسے لوگ اس کی مثال ہیں) ان لوگوں نے جس طرح سے اسلام اور شعائرِ اسلام کو نشانہ بنایا، نعوذباللہ توہین آمیز خاکے بنائے اور قرآن کی توہین کی، اس سے بھی اسلاموفوبیا کو تقویت ملی۔
پچھلے کئی سالوں سے انٹرنیٹ پر بھی جس طرح اسلام، مسلمانوں کی توہین، قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، مسلم میڈیا اس حوالے سے ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کی خبریں صرف سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائیٹس سے ملتی ہیں جن میں اسلاموفوبیا واچ، اسلاموفوبیا ڈے اور کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن قابلِ ذکر ہیں۔
مختصراً یہ کہ صلیبی اور صہیونی قوتوں کو اپنی مادر پدر آزاد بد تہذیبی کے مقابلے میں جس اسلامی تہذیب سے خطرہ ہے، اسے انہوں نے اسلاموفوبیا کے نام سے عوام الناس کے دماغوں میں بٹھا دیا ہے ۔اور اب یہ مغرب سے نکل کر افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ملکو ں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کا اثر ہمارے ملک میں بھی جا بجا دیکھنے کو ملا  جس  کی  وجہ سے آج کل ہمارے وطن عزیز میں بھی  ٹوئیٹر پر  اسلاموفوبیا کے خلاف ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے ۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور علاقوں میں بھی محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل سے متاثر افراد  فیس بک اور ٹویٹر پر گستاخانہ جملے لکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو کہ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو پاش پاش کرنے کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔انتہائی شرم ناک بات یہ ہے  کہ ایسے افراد کی پشت پناہی ان علاقوں کے  ممبر آف پارلیمنٹس  اور دوسرے سیاسی رہنما کرتے کرتے ہیں ۔جو کہ وطن عزیز کی جمہوریت کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔اس کی تازہ مثال آپ ومل  راج نامی سورجاپوری ( اتر دیناجپور، متصل کشن گنج بہار) باشندے کے فیس بک پوسٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔جس نے چند ماہ قبل اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں  گستاخانہ پوسٹ کیا تھا ۔ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ ومل راج  جیسے اور بھی دوسرے افراد ہیں جو اسلام مخالف سرگرمیاں کیا انجام دیتے رہتے ہیں اور وقت بہ وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فیس بک اور ٹویٹر پر نفرت بھرے پوسٹ اور ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اتردیناجپور کے  رکن پارلیمنٹ دیو شری اور کشن گنج کے ڈاکٹر دلیپ جے سوال جیسے لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہیں۔یہ دونوں سیاستدان بی جے پی کے ہیں۔
اسلاموفوبیا کا انسداد
۲۶ ستمبر ۲۰۱۸ء کو یورپی پارلیمان نے برسلز میں انسداد اسلاموفوبیا ٹول کٹ کا اجرا کیا اور مختلف حکومتوں، سماجی تنظیموں، میڈیا اور دیگر قانون بنانے والوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس قدم کا مقصد اسلاموفوبیا سے لڑنا اور اسے بڑھتے اثرات کو ختم کرنا تھا۔

لیکن وطن عزیز کی برسر اقتدار جماعت نے اسلاموفوبیا  کا مکمل فائدہ اٹھایا اور ملک کی اکثریت کو یہاں کے اقلیت سے خوف دلاکر اور ہراساں کرکے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور آج بھی اپنی خامیاں عیاں ہونے کے خوف سے وطن عزیز کی  اکثریت کو اقلیت سے ڈرا کر نت نئے ہتھکنڈے اپناتی رہتی ہے

ایسی صورتحال میں ملک کی اقلیت کو کو ہونش کے ناخن لینے کی  اور متعین وقت سے قبل صحیح فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔

آج وطن عزیز کے بیشترعلاقوں میں  اسلام مخالف شر پسند عناصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم کی شان میں میں گستاخی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسلام ،مسلمان   اور محسن انسانیت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شرانگیزی کرتے رہتے ہیں

مسلمانوں۔۔۔۔۔۔!!!!! اگر آج ان تمام تمام بدعنوانیوں پر قدغن لگانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا تو جان لیجیے کہ آنے والا وقت اس سے بھی خطرناک ہوگا۔ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے یہ زمین مزید تنگ کر دی جائے گی۔
از:- احمد اللہ سعیدی عارفی (محمد احمد رضا) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں اور کوشامبی الہ آباد بعد آباد


ہفتہ، 6 جون، 2020


دوستو..........!  مولانا نذر الاسلام صاحب سرجا پور علاقے کے ایک قابل عالم دین تصور کیے جاتے ہیں۔فضیلت تک تعلیم مکمل  کرنے کے  بعد موصوف نے چند سال ایک ادارے میں رہ کر  تدریسی خدمات انجام دی لیکن چند داخلی وجوہات کی بنا پر موصوف نے اپنے گاؤں ہی میں رہ کر درس و تدریس،دعوت و تبلیغ اور اپنے قبیلے کی اصلاح کو ترجیح دیا۔
ایک با صلاحیت عالم دین ہونے کے  ساتھ ہاتھ موصوف بہت ہی اچھے خطیب بھی ہیں۔ کل جمعہ کے دن اپنے خطاب میں موصوف نے فرمایا کہ آج کل اگر کوئی عالم دین  اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے اپنے میدان  تجارت اترتا ہے یا کسی ہنر سے خود کو آراستہ کرنے کی سعی کرتا ہے  تو ہماری قوم کے ہی بیشتر افراد ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور  انگشت نمائی کرتے ہوئے زبان دراز ہوتے ہیں کہ دیکھیے عالم ہو کر تجارت کر رہا  ہے یا کوئی کام کاج کر رہا ہے۔  ایسے لوگوں کو چاہیے کہ علماء کی شان میں اس نوعیت کے نازیبا کلمات زبان زد کرنے سے قبل ایک لمحہ کے بھی توقف کیے بغیر ذرا تاریخ کے اوراق کو گردانیں اور اپنے اسلاف کی داستان سے رو شناس ہوں۔ان کے عادات واطوار ، حرکات و سکنات، اور شب و روز کے معمولات سے واقفیت حاصل کریں۔  آپ تاریخ کے اوراق کو اپنی آنکھوں کی زینت بنائیں گے تو معلوم ہوگا کہ امام قدوری علیہ الرحمہ (362 هـ - 428 هـ) جیسے لوگ اپنے وقت کے ایک عظیم فقیہ ہونے کے باوجود ایک  کمہار بھی تھے، لوگوں کے برتن درست فرما کر اپنے کبنہ کے لئے روزینہ اہتمام کرتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد اور اپنے وقت کے عظیم فقیہ حضرت عبداللہ ابن مبارک کی مثال لے لیجئے ۔۔ آپ کی ساری زندگی حج، تجارت اور جہاد کیلئے سفر کرتے گزری۔آپ وہ پہلے شخص ہیں جس نےجہاد کے موضوع پر کتاب تصنیف فرمائی۔ 118ھ بمطابق736ء کو خراسان میں پیدا ہوئے اور رمضان المبارک 181ھ بمطابق 797ء کو روم کی جنگ سے واپسی پر دریائے فرات کے قریب مقام ہِیْت میں انتقال فرماگئے۔
(الاعلام للزرکلی،ج4،ص115،سیر اعلام النبلاء،ج7،ص602،606)
ذریعۂ آمدن آپ کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور فرماتے تھے:اگر پانچ شخصیات نہ ہوتیں تو میں تجارت ہی نہ کرتا،پوچھا گیا وہ پانچ شخصیات کون ہیں تو فرمایا:(1) حضرت سفیان ثوری (2) حضرت سُفیان بن عُیَیْنَہ(3) حضرت فضیل بن عِیاض (4) حضرت محمد بن سَمّاک اور(5) حضرت ابن عُلَیّہ علیہم الرحمۃ آپ تجارت کیلئے خراسان کا سفر فرماتے اور جو نفع ہوتااس میں سے بقدر ضرورت اپنے اہل و عیال کا اور حج کا خرچہ نکال کر باقی ان پانچ ہستیوں کو بھجوادیتے۔ (تاریخ بغداد،ج6،ص234)
علاوہ ازیں بیشتر فقہاء و محدثین ایسے گزرے ہیں  جنہوں نے فقہ و فتاؤی یا درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش کے لئے  تجارت سے بھی وابستگی رکھی تھی ۔ موصوف نے بتایا کہ کرہ ارض کے ایک حصہ میں جب تک خلفاء راشدین، اموی، عباسی اور عثمانی خلق خدا کی رہنمائی کرتے رہے تب تک اسلام کی ترویج و اشاعت،دعوت و تبلیغ اور  فقہ وفتاوی یا درس و تدریس کی خدمت پر مامور حضرات میں سے بیشتر  کو حکومت کی جانب سے معاشی امداد  حاصل رہی۔ ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہوئے جنہوں نے حکومتی امداد  کو صرف نظر کرتے ہوئے  کسی ہنر کے ذریعے اپنے اہل وعیال کی کفالت کا بار گراں برداشت کیا  یا پھر تجارت کے ذریعے کسب معاش کو ترجیح دیا۔
اب  چونکہ ایسا ماحول نہیں رہا،  زمانہ بدل گیا  اور جو لوگ مساجد کی امامت پر مامور ہیں  یا مذہب اسلام کی دعوت و تبلیغ ، ترویج و اشاعت اور درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں  کوئی حکومتی امداد حاصل نہیں (تلنگانہ، مغربی بنگال اور دہلی میں گذشتہ کئی سال سے ایٔمہ  اور موذنوں کو تنخواہیں مل رہی ہیں) اور نہ ہی مسلمان  صحیح معنوں میں ایٔمہ، دعاة اور مدرسین کو مناسب تنخواہ  دیتے ہیں کہ اہل خانہ کی مکمل حاجت روائی ہو سکے۔ ایسے موقع پر اگر بیشتر حضرات معاشی بدحالی کی گرفت سے بچنے کے لئے اپنے بچے ہوئے وقت کو بروئے کار لا کر تجارت سے وابستگی اختیار کرتے ہیں یا کسی ہنر کو سیکھنے میں اپنا وقت صرف کر رہے ہیں  تو  اس پر کسی کا اعتراض کرنا بے جا اور نا مناسب ہے ۔  اس سے گریز از حد ضروری ہے ورنہ علماء پر اس قسم اعتراض کرنا خیبت و خسرانی کا سبب بن سکتا ہے۔
                     اس کے علاوہ موصوف نے فرمایا کہ ہم میں سے ہر کسی کو ایک دن اس دار فانی کوچ کر جانا ہے ۔ بعد ازاں روز قیامت  اپنے تمام تر عادات و اطوار حرکات و سکنات اور معمولات کا حساب بھی دینا ہے۔ اسی لیے ہمیں کسی کے ٹوہ  میں نہ پڑ کر اپنے اعمال و کردار کو سنوارنے میں پوری توجہ دینا چاہیے  اور علماء  کی قدر کرنے کے ساتھ  ساتھ انہیں معاشی امداد بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ پوری توجہ کے ساتھ خدمت دین میں لگے رہیں تاکہ تا قیامت مذہب اسلام کا بول بالا ہوتا رہے۔
اس کے علاوہ موصوف نے اور بھی مزید باتیں کیں جو انتہائی سبق آموز تھیں۔
از قلم :- احمد اللہ سعیدی عارفی ( محمد احمد رضا  اتر دیناج پور ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...