دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی بر صغیر کی مشہور و معروف شخصیات میں سے ایک ہیں ۔ وطن عزیز اور مسلمانوں کے نو پید مسائل کے تئین اپنے قیمتی تاثرات سے قلم کو حرکت دیتے رہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں موصوف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ تاریخ (history department ) میں ایک عرصہ تک تدریسی خدمات بھی انجام دیا ہے ۔ عرس عارفی کے موقع پر حضرت خانقاہ عارفیہ/جامعہ عارفیہ سید سراواں شریف کوشامبی الہ آباد تشریف لائے ۔ بعد نماز مغرب موصوف سے ملاقات ہوئی۔ بیشتر حضرات کی موجودگی میں راقم نے موصوف سے دریافت کیا کہ NRC )National Registration Of Citizenship)اور CAB)Citizenship Amendment Act ) کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت ملک کی ۲۲ سے زائد یونیورسٹیوں کے طلبا مسلسل کئی دن سے احتجاج کر رہے ہیں، متعدد طلبہ شہید ہوئے، بے شمار زخمی ہوگئے اور پولیس والوں نے ظلم و بربریت سے ہاسٹل ،لائبریریاں اور مساجد میں توڑ پھوڑ کیا، اتنا نقصان ہوا لیکن اب تک اس کا کوئی مؤثر نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس پر ڈاکٹر موصوف نے لب کشائی کی کہ اب تک اگر کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم لوگ احتجاج کرنا بند کر دیں ۔ اگر حکومت کے ذریعے کوئی ایسا قانون بنتا ہے جس سے ملک کی اکثریت کو یا ملک کے ایک بڑے طبقے کو اپنی بیشتر بنیادی حقوق سے محرومی ہو تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ان کا حق ہے اور اگر فوری طور پر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نتیجہ اللہ کے نزدیک ہے ۔
اس کے بعد راقم نے ان سے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کرنے کے بجائے اگر تمام مسلمان اور سیکولر غیر مسلم مل کر مشترکہ طور پر دہلی میں احتجاج کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس پر ڈاکٹر موصوف صاحب بتایا کہ دہلی میں تو ملک کے سیکولر حضرات مشترکہ طور پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی protests ہونا ضروری ہے تاکہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس چہار جانب سے نظر آئے ۔ اس پر موصوف نے مزید اضافہ کیا کہ اس بل کے خلاف ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اکثریت کا بڑا طبقہ بھی ہے اس لئے مسلمانوں کو اسلامی تشخص کے ساتھ جلوس اور احتجاج میں شرکت نہیں کرنا چاہئے نیز اسلامی نعرے نہیں لگانا چاہیئے ورنہ اس کے ذریعے فسطائی طاقتوں کے پروردہ فسادات برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے نیز احتجاج کے ذمہ داران مائک اپنے ہی ہاتھوں میں رکھیں کیوں کہ بیشتر مقامات پر ہورہے احتجاج میں فساد پھیلانے والوں کی جب شناخت کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کوئی مسلمان نہیں بلکہ فسطائی طاقتوں کی جانب سے اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کی غرض سے یہ جلوس اور احتجاج میں شامل ہو کر فسادات پھیلا رہے ہیں ۔ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے پھر احتجاج کے لئے نکلیں ۔
راقم کے ایک اور سوال پر موصوف نے فرمایا کہ چونکہ دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے اس لئے آپ باہر احتجاج نہیں کر سکتے لیکن اگر آپ اس بل کے خلاف احتجاج کرنا چاہ رہے ہیں، جو کہ آپ کا حق ہے تو آپ اپنے کیمپس میں ہی صدائے احتجاج بلند کر سکتےہیں لیکن آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے آپ مقامی سیکولر غیر مسلموں کو ، جو کہ چند روز قبل NRC اورCAB کے خلاف علم احتجاج بلند کر چکے ہیں، ساتھ لے لیں اور اس جلوس میں کوئی بھی اسلامی نعرے نہ ہوں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ موصوف نے ملک بتایا کہ حکومت کی بے راہ رویوں کی وجہ سے آج ملک میں کس قدر ابتری پھیلی ہوئی ہے ۔ آج وطن عزیز کی جو صورت حال ہے، ملک کی سالمیت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔
از قلم:- احمد اللہ سعیدی عارفی( محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد
اس کے بعد راقم نے ان سے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کرنے کے بجائے اگر تمام مسلمان اور سیکولر غیر مسلم مل کر مشترکہ طور پر دہلی میں احتجاج کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس پر ڈاکٹر موصوف صاحب بتایا کہ دہلی میں تو ملک کے سیکولر حضرات مشترکہ طور پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی protests ہونا ضروری ہے تاکہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس چہار جانب سے نظر آئے ۔ اس پر موصوف نے مزید اضافہ کیا کہ اس بل کے خلاف ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اکثریت کا بڑا طبقہ بھی ہے اس لئے مسلمانوں کو اسلامی تشخص کے ساتھ جلوس اور احتجاج میں شرکت نہیں کرنا چاہئے نیز اسلامی نعرے نہیں لگانا چاہیئے ورنہ اس کے ذریعے فسطائی طاقتوں کے پروردہ فسادات برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے نیز احتجاج کے ذمہ داران مائک اپنے ہی ہاتھوں میں رکھیں کیوں کہ بیشتر مقامات پر ہورہے احتجاج میں فساد پھیلانے والوں کی جب شناخت کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کوئی مسلمان نہیں بلکہ فسطائی طاقتوں کی جانب سے اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کی غرض سے یہ جلوس اور احتجاج میں شامل ہو کر فسادات پھیلا رہے ہیں ۔ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے پھر احتجاج کے لئے نکلیں ۔
راقم کے ایک اور سوال پر موصوف نے فرمایا کہ چونکہ دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے اس لئے آپ باہر احتجاج نہیں کر سکتے لیکن اگر آپ اس بل کے خلاف احتجاج کرنا چاہ رہے ہیں، جو کہ آپ کا حق ہے تو آپ اپنے کیمپس میں ہی صدائے احتجاج بلند کر سکتےہیں لیکن آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے آپ مقامی سیکولر غیر مسلموں کو ، جو کہ چند روز قبل NRC اورCAB کے خلاف علم احتجاج بلند کر چکے ہیں، ساتھ لے لیں اور اس جلوس میں کوئی بھی اسلامی نعرے نہ ہوں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ موصوف نے ملک بتایا کہ حکومت کی بے راہ رویوں کی وجہ سے آج ملک میں کس قدر ابتری پھیلی ہوئی ہے ۔ آج وطن عزیز کی جو صورت حال ہے، ملک کی سالمیت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔
از قلم:- احمد اللہ سعیدی عارفی( محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد

