ہفتہ، 21 دسمبر، 2019

دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی بر صغیر کی مشہور و معروف شخصیات میں سے ایک ہیں ۔ وطن عزیز اور مسلمانوں کے نو پید مسائل کے تئین اپنے قیمتی تاثرات سے قلم کو حرکت دیتے رہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں موصوف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ تاریخ (history department ) میں ایک عرصہ تک تدریسی خدمات بھی انجام دیا ہے ۔ عرس عارفی کے موقع پر حضرت خانقاہ عارفیہ/جامعہ عارفیہ سید سراواں شریف کوشامبی الہ آباد تشریف لائے ۔ بعد نماز مغرب موصوف سے ملاقات ہوئی۔ بیشتر حضرات کی موجودگی میں راقم نے موصوف سے دریافت کیا کہ NRC )National Registration Of Citizenship)اور CAB)Citizenship Amendment Act ) کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت ملک کی ۲۲ سے زائد یونیورسٹیوں کے طلبا مسلسل کئی دن سے احتجاج کر رہے ہیں، متعدد طلبہ شہید ہوئے، بے شمار زخمی ہوگئے اور پولیس والوں نے ظلم و بربریت سے ہاسٹل ،لائبریریاں اور مساجد میں توڑ پھوڑ کیا، اتنا نقصان ہوا لیکن اب تک اس کا کوئی مؤثر نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس پر ڈاکٹر موصوف نے لب کشائی کی کہ اب تک اگر کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم لوگ احتجاج کرنا بند کر دیں ۔ اگر حکومت کے ذریعے کوئی ایسا قانون بنتا ہے جس سے ملک کی اکثریت کو یا ملک کے ایک بڑے طبقے کو اپنی بیشتر بنیادی حقوق سے محرومی ہو تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ان کا حق ہے اور اگر فوری طور پر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نتیجہ اللہ کے نزدیک ہے ۔

اس کے بعد راقم نے ان سے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کرنے کے بجائے اگر تمام مسلمان اور سیکولر غیر مسلم مل کر مشترکہ طور پر دہلی میں احتجاج کریں تو بہتر ہوگا ۔ اس پر ڈاکٹر موصوف صاحب بتایا کہ دہلی میں تو ملک کے سیکولر حضرات مشترکہ طور پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی protests ہونا ضروری ہے تاکہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس چہار جانب سے نظر آئے ۔ اس پر موصوف نے مزید اضافہ کیا کہ اس بل کے خلاف ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اکثریت کا بڑا طبقہ بھی ہے اس لئے مسلمانوں کو اسلامی تشخص کے ساتھ جلوس اور احتجاج میں شرکت نہیں کرنا چاہئے نیز اسلامی نعرے نہیں لگانا چاہیئے ورنہ اس کے ذریعے فسطائی طاقتوں کے پروردہ فسادات برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے نیز احتجاج کے ذمہ داران مائک اپنے ہی ہاتھوں میں رکھیں کیوں کہ بیشتر مقامات پر ہورہے احتجاج میں فساد پھیلانے والوں کی جب شناخت کی گئی تو پتا چلا کہ یہ کوئی مسلمان نہیں بلکہ فسطائی طاقتوں کی جانب سے اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کی غرض سے یہ جلوس اور احتجاج میں شامل ہو کر فسادات پھیلا رہے ہیں ۔ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے پھر احتجاج کے لئے نکلیں ۔

راقم کے ایک اور سوال پر موصوف نے فرمایا کہ چونکہ دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے اس لئے آپ باہر احتجاج نہیں کر سکتے لیکن اگر آپ اس بل کے خلاف احتجاج کرنا چاہ رہے ہیں، جو کہ آپ کا حق ہے تو آپ اپنے کیمپس میں ہی صدائے احتجاج بلند کر سکتےہیں لیکن آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے آپ مقامی سیکولر غیر مسلموں کو ، جو کہ چند روز قبل NRC اورCAB کے خلاف علم احتجاج بلند کر چکے ہیں، ساتھ لے لیں اور اس جلوس میں کوئی بھی اسلامی نعرے نہ ہوں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ موصوف نے ملک بتایا کہ حکومت کی بے راہ رویوں کی وجہ سے آج ملک میں کس قدر ابتری پھیلی ہوئی ہے ۔ آج وطن عزیز کی جو صورت حال ہے، ملک کی سالمیت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔
از قلم:- احمد اللہ سعیدی عارفی( محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی الہ آباد

جمعرات، 19 دسمبر، 2019

- : اٹھا قلم تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! : -

                 دورستوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہمارے گاؤں "سملیہ " جو کہ بہار اور بنگال کا سنگم ہے،  سے تقریبا ۱۔۵ میل/۲ کیلو میٹر دوری پر  قومی شاہراہ  NHAI31 سے  متصل  دولت پور نامی مقام پر واقع "جامعہ نوریہ برکات العلوم " سے موسوم  اہل سنت و جماعت کا ایک چھوٹا سا ادارہ ہے ۔کل مورخہ ۲۷ نومبر سنہ ۲۰۱۸ء بروز منگل کو جامعہ ھذا کی چہار دیواری کے اندر ہمارے علاقے کی شان مناظر اھل سنت حضرت علامہ و مولانا مفتی مطیع الرحمان صاحب قبلہ کی سرپرستی میں  سالانہ اجلاس کا انعقاد ہوا۔

                 اس جلسے میں مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ ساتھ  دیگر علاقائی بڑی شخصیات کے علاوہ  ملک گیر شہرت یافتہ  مولانا غلام رسول بلیاوی اور اختر پرواز صاحبان بھی مدعو تھے۔  عشا کی نماز سے فارغ ہو کر عشائیہ تناول کرنے کے بعد راقم بھی مولانا صدام صاحب قبلہ جو کہ ہمارے بہت   ہی قریبی ہیں، کے کہنے پر جلسے میں شرکت کے لئے روانہ ہوا  ۔  تقریبا ۸:۳۰ بجے ہم دونوں جلسہ گاہ  پہنچ گئے ۔ مفتی صاحب قبلہ بھی سرپرستی کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے ۹:۰۰ بجے کے قریب اسٹیج پر جلوہ گر ہوگئے۔

پہلے ہم لوگ چائے خانے کی جانب نکلے   پھر جب مجمع کی طرف لوٹے تو دیکھا کہ اسٹیج پر  مفتی صاحب قبلہ کی تشریف آوری ہو رہی ہے  اور ایک مولوی صاحب پوری  توانائی کے ساتھ بڑے جوش میں خطاب کر رہے ہیں ان کی باتیں قوت سماعت سے ٹکرائیں تو سہی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا  ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر   ان کے بعد اناؤنسر نے مولانا صابر رضا صاحب کو مائیک سنبھالنے کی دعوت دی ۔ مولانا موصوف نے مختصر سے وقت میں  کافی عمدہ اور سبق آموز باتیں کیا ۔  مولانا نے ہمارے قوم کے اندر اردو زبان و ادب کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے مجمع کو بتایا کہ وسطانیہ فوقانیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تحت جو سندیں طلبہ کو جاتی ہیں وہ کافی اہمیت کے متحمل ہیں کیوں کہ حکومت ان سندوں کو اہمیت دیتی ہے ۔ انہوں نے عوام الناس سے قطع نظر صرف علماء کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے تئین  انتہائی افسوس کا مظاہرہ کیا کہ آج ہمارے ملک میں ۹۰ فیصد عالم پورے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس قرأت کے ذریعے وہ نماز پڑھتے یا پڑھاتے ہیں اس میں مکمل درستگی ہے یا نہیں؟انہوں نے قرب و جوار کے ضعیف اور نوجوان حضرات کے لئے یہ خوشخبری سنائی کہ اس ادارے میں ہر ماہ کے پہلے جمعرات کو تعلیم بالغہ کے نام سے ایک کورس کا آغاز کیا جا رہا ہے جس میں علاقائی بوڑھے اور جوان چھوٹی چھوٹی سورتوں کی اچھی طرح سے مشق کریں گے اور اپنی نماز کو ظاہر وباطن دونوں اعتبار سے درست کرنے کی کوشش کریں گے ۔
        انہوں نے علماء اور عوام کو صرف  نعرے بازی سے گریز کرنے کی ہدایت دی اور مزید کہا کہ  علماء اور عوام صرف مسلک اعلی حضرت کا نعرہ نہ لگائیں  بلکہ عوام دین کے مبادیات اور اصولی احکام کو سیکھیں و  سمجھیں   اور علماء اصول کے ساتھ ساتھ   دیگر فروعی  مسائل کے تعلیم و تعلم میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں اور علماء نعرے بازی کے بجائے عوام الناس میں دینی ماحول ہموار کرنے میں اپنی قوت صرف کریں ۔  مولانا موصوف نے اور بھی مزید قیمتی باتیں کیں جو سیمانچل کے مسلمانوں کو کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی ۔ انشاءاللہ ۔

    ان کے بعد ناظم اجلاس نے مفتی صاحب قبلہ کی موجودگی میں اپنا تاثر پیش کرنے کے لئے اسی علاقے واقع لڑکیوں کا ایک کامیاب مدرسہ کے بانی و سربراہ مولانا مجاہد الاسلام صاحب  کو ۲ منٹ کا وقت دیتے ہوئے مائیک پر آنے کی دعوت دی ۔  مولانا موصوف نے سامعین کو صرف  یہی باور کرانے میں ۲ منٹ کا وقت صرف کر دیا کہ ان کو صرف ۲ منٹ کا وقت دیا گیا ہے ۔خیر انہوں نے کسی طرح ۱۵ منٹ میں اپنی بات مکمل کیا ۔ ویسے بھی اتنی بڑی شخصیت کو اپنا تاثر پیش کرنے کے لئے محض ۲ منٹ کا دیا جانا یہ اناؤنسر کا ایک غیر معقول فیصلہ تھا ۔

           اس کے بعد ناظم اجلاس نے مفتی صاحب قبلہ کو عوام الناس سے خطاب کرنے کی دعوت دی ۔ مفتی صاحب قبلہ عوام کے رو برو ہوئے ۔ پورے برصغیر میں یہ بات ہر عام و خاص کے مابین مشہور و معروف ہے کہ مفتی مطیع الرحمان صاحب قبلہ کی تقریر چیخ و پکار سے  مبرا  پوری متانت و سنجیدگی کے ساتھ ہوتی ہے،  گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ درسگاہ میں کوئی استاذ اپنے شاگردوں کو بحسن و خوبی ان کا سبق سمجھا رہا ہو ۔  مفتی صاحب قبلہ انتہائی قیمتی اسباق عوام و خواص کو پڑھائے مثلا انہوں نے بتایا کہ آج کل جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت عورت کے پاس بہت سی عورتیں موجود رہتی ہیں یہ سراسر ناجائز و حرام ہے بلکہ صرف وہی دائی وہاں حاضر رہے جس کی ضرورت ہو،  مفتی صاحب قبلہ نے ایک اور اہم نکتہ کی جانب اشارہ کہ جب کوئی  پیدا ہو تو اس کے کان میں سب سے پہلے کلمہ طیبہ اور  آذان کی آواز گونجنی  چاہئے۔  حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ عورتوں کے شور و غل اور فضول باتیں بچے کے کان میں  سب سے پہلے  گھر کر جاتی ہیں جس کے باعث بڑے ہو کر یہ بچہ انہی چیزوں کا رسیہ ہوتا ہے ۔ کاش کہ اگر بچے  کے کان میں اسلامی طریقے سے سب سے پہلے کلمہ طیبہ اور آذان کی آواز کے رس گھولے جائیں تو انشاءاللہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے اور بچہ بڑے ہوکر دیندار، پرہیزگار اور متقی ہوگا۔
     مفتی صاحب قبلہ نے اپنے خطاب میں بےشمار قیمتی باتیں بتائیں جو  لائق عمل رہیں لیکن چند باتیں مفتی صاحب قبلہ کی ایسی رہیں جو راقم کو ہضم نہیں ہوئیں مثلا انہوں نے کہا کہ" فقہ صرف چار ہیں " اگر ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت سے موسوم مسلمانان عالم کے درمیان اس وقت متفق علیہ مذاہب فقہ صرف چار ہیں  ( فقہ زیدیہ کو استثنا کئے بغیر ) تو ان کا کہنا بجا ہے ور نہ نہیں ۔  انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ "امام بخاری علیہ الرحمہ شافعی المسلک تھے " ان کا یہ کہنا مطلقا درست نہ ہو گا کیونکہ امام بخاری نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ وہ شافعی المسلک ہیں یا ان کے ارشادات و فرمودات سے اس طرح کے کوئی شواہد و نظائر نہیں ملتے جس سے صراحتا یہ کہا جا سکے کہ امام بخاری شافعی المسلک تھے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے امام شافعی اور امام بخاری کے جملہ  موافق  میں کافی حد یکسوئی اور اتفاق ہے لیکن  اگر کسی ما بعد امام کے مواقف کسی ما قبل امام کے موافق کے مساوی ہوں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مابعد امام ماقبل امام کا مقلد ہو ، ویسے بھی امام شافعی اور امام بخاری علیہما الرحمہ کے زمانے میں زیادہ فرق نہیں ہے ۔ امام شافعی کی وفات ۲۰۵ھ ہے اور امام بخاری کی  پیدائش ۲۱ شوال المکرم سنہ ۱۹۴ ھ ہے ۔ دونوں کی اپنی اپنی شان ہے ۔

           دوسری صدی ہجری تک کے جتنے بھی مشہور و معروف علماء ہیں سبھی مجتہد فی الشرع ہوئے ۔ تیسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے بہت ہی مشہور و معروف عالم دین امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوي  (۲۳۹ھ -۳۲۱ھ) علیہ الرحمہ کو فقہ حنفی میں صف اول (مجتہد فی المذہب )  فقہاء میں شمار کیا جاتا ہے لیکن عقائد میں جمھور احناف کے برخلاف ان کے نظریات امام ابو الحسن اشعری (۲۶۰ھ -۳۲۴ھ ) کے نظریات سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔

        تیسری صدی ہجری میں جو علماء مشہور ہوئے ان میں سے بعض  مجتہد فی الشرع  ہوئے اور بعض مجتہد فی المذہب ۔ دوسری صدی ہجری پیدا ہونے والے بعض علماء کو امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے شاگرد اور بیشتر فروعی مسائل میں ان کے موقف سے اتفاق ہونے کی بنا پر ان کا معتقد اور مقلد گردانا جاتا ہےجیسے کہ امام ابو یوسف  (۱۱۳ھ-۵ ربیع الاول ۱۸۲ھ)، امام محمد بن حسن الشيباني (۱۳۱ھ-۱۸۹ھ)، امام زفر بن ہزیل  (۱۱۰ھ-۱۵۸ھ)، امام حسن بن زیاد  (۷۳۴ء - ۸۱۴)،اور امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی (۲۰۹ھ- ۱۳رجب۲۷۹ھ ) کو امام شافعی  (۱۵۰ھ-۲۰۵ھ) کا ۔ رحمهم اللہ اجمعین ۔

        اس کے علاوہ انہوں نے فقہاء کے مابین مقام و مرتبہ کی  درجہ بندی کرتے ہوئے کہا کہ "سب سے زیادہ مرتبہ امام اعظم کا  پھر امام شافعی کا  پھر امام مالک کا  پھر امام احمد کا " ۔ اس میں انہی کی تخصیص نہیں، بلکہ بے شمار علمائے بر صغیر اس میں ملوث ہیں ۔ بڑے ادب و احترام کے ساتھ  میرا خصوصا مفتی صاحب قبلہ سے اور بالعموم  ان تمام علماء، جو فقہاء کے مابین  اس طرح کی درجہ بندی کرتے ہیں، سے سوال ہے کہ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ امام اعظم  ابو حنیفہ کا رتبہ امام شافعی اور امام مالک سے زیادہ ہے؟ اگر یہ آپ کا کشف ہے تو آپ اپنے کشف کے ذریعے کئے گئے  اس درجہ بندی کو اپنے تک محدود رکھئے یا اپنے پیروکاروں تک ہی محدود رکھئے  یا پھر پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیجئے کہ فقہاء کے درمیان یہ جو درجہ بندی ہے یہ ان کے  پیروکار  اور متبعین کو  مد نظر رکھتے ہوئے ہے نہ کہ ان کے مرتبے کے لحاظ سے ۔  ویسے بھی بر صغیر کے علماء کا ہی ماننا ہے کہ عوام کالانعام ہے تو عوام الناس کے سامنے اس طرح اشارات و کنایات اور متشابہات کے ذریعے بغیر وضاحت کے  خطاب کرنا چہ معنی دارد؟     خیر ۔۔۔۔۔۔۔! کہاں سے  میں کدھر پھنس گیا ۔ مفتی صاحب قبلہ کی نصیحت آمیز گفتگو کے بعد جناب اختر پرواز صاحب مجمع کے رو برو ہوئے انہوں نے بھی عوام کو کافی ورزش کرائی ۔انتظار کی مدت  بالآخر ختم ہوئی اور جس شخصیت کی گرج دار آواز   سننے کی غرض سے راقم ۲ کیلو میٹر دوری کا سفر طے کر کے آیا تھا وہ شخصیت اسٹیج پر جلوہ گر ہوئی ۔ ویسے سن رکھا تھا کہ حضرت پارلیمنٹ سے لیکر بڑے بڑے اسٹیجوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں ابھی ماضی قریب میں حضرت نےایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی ہے جس کے تحت وہ نچلے طبقے کے لوگوں کو متحد  کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ حضرت کا ایک دوسرا چہرہ بھی نگاہوں کے  سامنے  میں ہے جو جامعہ اشرفیہ کے واردات میں ذہن نشین ہوا تھا ۔ خیر حضرت کی گفتگو شروع ہوئی اور ۲۰ سے ۲۵ منٹ گذر گئے لیکن حضرت کی گفتگو کا کوئی متعین رخ سمجھ میں نہیں آیا ۔ آپ سے کیا بیان کروں کہ حضرت کیا فرما رہے تھے ۔ ایک تو  حضرت یہ بھی کہ رہے تھے کہ بلیاوی آج اس کانفرنس میں صرف میلاد سے متعلق گفتگو کرے گا اور دوسری طرف حضرت کانفرنس میں موجود سابق ایم ایل اے صاحب کے اوصاف بھی بیان کر رہے تھے ۔۱۰ سے ۱۵  منٹ اور  اسی طرح  ان کو برداشت کر رہا تھا ۔ ہمارے بھائی نما دوست مولانا شاہ نواز عالم سعیدی عارفی مصباحی کے عم مکرم حضرت علامہ و مولانا مزمل حسین صاحب مصباحی (بانی و سربراہ جامعہ رضویہ نعیم العلوم ) ہمارے آگے تشریف فرما تھے، آخر مجبورا  ہماری مادری زبان میں بول پڑے کہ " الا تقریر نی پوسابے،  یہا سے بڑھیاں تو ہمرا بولہی " مطلب یہ کہ اس طرح کی تقریر سن کے کوئی فائدہ نہیں اس سے اچھی تقریر ہم ہی  لوگ کر لیتے ہیں مطلب یہ کہ کسی نہ کسی موضوع کے تحت بولتے ہیں اور اللہ و رسول کی باتیں اور ارشادات و فرمودات لوگوں سے بیان کرتے ہیں نہ کہ کسی ایم ایل اے یا کسی ایم پی کے اوصاف بیان کرتے ہیں ۔   اس کے بعد مولانا مزمل صاحب، مولانا صدام صاحب اور دیگر رفقاء کے ہمراہ راقم بھی گھر لوٹ آیا ۔ 


 راقم- احمد اللہ سعیدی عارفی  (محمد احمد رضا ) جامعہ عارفیہ سید سراواں آلہ آباد  یوپی

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...