ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

-: ایک نظر ادھر بھی:-
           
               ہر سمت چہل پہل ہے ،خوشیوں کا سماں اپنے منتہائے عروج پر ہے، طلباء یونیفارم  میں ملبوس ہو کر کیمپس کے چہار جانب مسرت و شادمانی کے ساتھ طرب انگیز  نغمات کے ذریعے لوگوں کے کانوں میں محبت و اخوت کے رس گھول رہے ہیں، ملک و بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کا سلسلہ مزید طول پکڑتا جا رہا ہے، زائرین کی تعداد اور  ہجوم کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگر بالفرض پوری دنیا کو ایک سلطنت  تسلیم کر لیا جائے تو گویا آج اس مملکت  کے بادشاہ کی تاج پوشی کا دن  ہو، جامعہ ہذا کے طلبہ  بحیثیت والنٹیر  ہر سمت گشت لگا رہے ہیں اور باہر سے آئے ہوئے مہمانوں(guests) کو ان کے قیام گاہ تک پہنچانے میں مصروف ہیں، کرہ ارض سے مختلف ممالک کے باشندگان وفد در وفد آرہے ہین ۔

        اتنے میں ایک وفد میرے نزدیک آرہا ہے  اور اس کے بعد مہمان خانے کے متعلق دریافت کر رہا ہے، شکل و شباہت سے یہ وفد چین کا معلوم ہو رہا ہے، میں اس وفد کو چینی مہمان خانے کا راستہ بتا رہا ہوں، اس وفد کے سربراہ سے چند منٹ کی گفتگو سے معلوم ہو رہا ہے کہ  یہ لوگ  عرس عارفی کے اس حسین موقع پر چین سے آئے ہیں اور یہاں تجارت کرنا چاہتے ہیں،اور سبھی مسلمان ہیں ۔ اب مجھے آہستہ آہستہ اپنے قدموں کو صدر دروازہ کی سمت بڑھا نا چاہیے۔ اچانک اپنی نگاہوں کے سامنے چھ یا سات نقاب پوش عورتوں پر مشتمل ایک وفد کو اپنے قریب آتا دیکھ رہا ہوں ، قریب آکر ان میں کی ایک عورت شرمیلی نگاہوں اور کپکپاتی ہونٹوں سے یوں مخاطب ہو رہی ہے کہ؛ بھائی جان! مسجد کس جانب واقع ہے؟ میں نے ان سے کہ رہا ہوں کہ جامع مسجد کے قریب ہی یورپی مہمان خانہ ہے پہلے آپ لوگ فراغت حاصل کر لیں بعد اذاں نماز ادا کر لیں گے۔ چونکہ قریب آتے ہی انہوں نے انگریزی زبان اور برطانوی لہجے میں مجھ سے گیسٹ ہاؤس کے متعلق دریافت کیا اس لئے بغیر کسی تامل کے میں سمجھ گیا کہ یہ یورپی  ہیں۔
           
                 مغرب کی نماز میں ابھی تقریبا ایک گھنٹہ سے زائد وقت باقی ہے اس لئے مجھے اپنے خاص  مہمانوں کا راستہ بھی دیکھنا چاہئیے اسی غرض سے میں شاہ صفی روڈ ہوتے ہوئے قومی شاہراہ کی جانب اپنے قدموں کو حرکت دے رہا ہوں ۔ ارے واہ ۔۔۔۔۔! نیشنل ہائی وے کی طرف خانقاہ اور جامعہ ہذا کا نظارہ ہی کچھ اور ہے ۔ اس کی خوبصورتی کے سامنے تو کلکتہ کا وکٹوریہ  میموریل،  سڈنی کا اوپیرا ہاؤس،  استنبول کا فاسفورس بریج،  پیرس کا ایفل ٹاور اور آگرہ کا تاج محل سب ماند پڑ رہا ہے ۔ جامعہ ھذا کی حسن عمارت،  نقش و نگار موجودہ دور کی امریکی یونیورسٹی  اسٹینفورڈ یونیورسٹی (  stanford university ) کی یاد دہانی کرتی ہے، سرخ رنگ کی ان عمارتوں کے سامنے تو بیلجیئم یونیورسٹی بھی ہیچ ہے۔  ہائے وے سے جوں ہی زائرین کی نگاہ جامعہ کی بلڈنگوں  پر پڑ رہی ہے وہ  فرحت  و انبساط سے اس قدر مچلنے  لگ  رہے  ہیں جیسے  صدیوں سے خانقاہ اور جامعہ ہذا کی زیارت  کی تڑپ ان کے دلوں میں انگڑائیاں لے رہی ہوں ۔

            مجھے مزید آگے بڑھ کر ،یعنی قومی شاہراہ (   grand track road/NHAI2) تک جاکر  اپنے مہمانوں کا استقبال کرنا چاہیے ۔ ارے ۔۔۔۔۔۔۔! یہ کیا، اب تو اپنی نگاہوں کے سامنے میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس سے میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ اب میں بین الاقوامی مذہبی یگانگت کا اعلی ترین نمونہ دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے ملک میں آباد سکھ برادران  اپنے روایتی انداز میں تلوار،  ڈھول، تاشے، برچھی اور بے شمار آلات کے ذریعے اپنے جلوس کو سجائے ہوئے ہیں۔  رفتہ رفتہ یہ جلوس شاہ صفی روڈ ہوتے ہوئے حضرت مخدوم شاہ عارف صفی قدس سرہ  کو سلامی دینے آرہا ہے ۔ جلوس صدر دروازے پر پہنچ رہی ہے کہ اسی ، پیر طریقت  حضور داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی ادام اللہ ظلہ علینا کو ان کے سردار سلامتی اور تحائف پیش کر رہے ہیں اور معا میاں حضور قبلہ بھی ان کے سربراہ کو ہدیہ و تحائف پیش کر رہے ہیں۔
   
     اوہ۔۔۔۔۔۔۔!  میں بھی عجیب ہوں، ان پر لطف اور دلفریب مناظر کو دیکھ کر بھول جاتا ہوں کہ مجھے اپنے مہمانوں کی راہ دیکھنے کے لئے آگے جانا ہے  ۔ خیر میں آگے بڑھتا ہوں۔  ارے یہ کیا ۔۔۔! ایک اور جلوس!!!!!، یہ تو اس سے بھی کافی بڑا جلوس ہے ۔اس جلوس میں شرکت کئے ہوئے سبھی حضرات زعفرانی رنگ کے لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں، ان کا بھی انداز سابقہ  جلوس ہی کی مانند ہے لیکن اول الذکر جلوس کے بنسبت یہ جلوس قدرے جذباتی  اور کیف و سرور  کے برسات میں لطف اندوز اور سرشار  نظر آرہا ہے ، یہ تو ڈی جے،بینڈ اور ڈھول تاشے کے ساتھ ہیں، اس جلوس میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد تو گذشتہ جلوس کے افراد کی بہ نسبت  دوگنا ہے ۔ میں بھی جلوس میں شمولیت اختیار کر لیتا ہوں ،  انتہائی پر کیف منظر ہے اور جلوس اب مین گیٹ کے قریب پہنچ رہی ہے ،اس کے اہم شخصیتیں چادر لے کر مزار پر چڑھا نے کے لئے اندر داخل ہو رہی ہیں ، میاں حضور قبلہ مزار ہی میں جلوہ گر ہیں، میاں حضور قبلہ ادام اللہ ظلہ علینا ان حضرات کو تحائف پیش کر رہے ہیں ، کتنا خوشگوار ماحول ہے،      مسرت و شادمانی اور فرحت و انبساط میں ڈوبی ہوئی اس سماں  سے لطف اندوز ہونے والا ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ باغ جنت کی سیر میں مست ہے،یہ سلسلہ اور کیا کیا دراز ہوتا کہ اتنے میں حي على الصلاة و حي على الفلاح کا نغمہ لاہوتی میرے قوت سمع سے ٹکرائی اور میں بیدار ہو گیا ۔   اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ تو خواب تھا، کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! خیر۔۔۔۔! انشاءاللہ بہت جلد میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا اور اس ملک میں جامعہ عارفیہ کی تخمینی شکل کے ساتھ ساتھ بین المذاہب یگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ بھی کریں گے ۔ انشاءاللہ ۔

نوٹ:- یہ خواب میں نے سالانہ عرس عارفی قدس سرہ کے تین دن قبل دیکھا تھا ۔
 
 از قلم:- احمد اللہ سعیدی عارفی  (جامعہ عارفیہ آلہ آباد )

بدھ، 9 اکتوبر، 2019

نسل نو کی تربیت کیسے کریں؟

دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! عزت مآب حضرت علامہ و مولانا محمد غلام مصطفی ازہری صاحب جامعہ عارفیہ کے ایک سینئر استاد ہیں، ان کی شخصیت ہر عام و خاص کے لیے ایک آیئڈل اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جامعہ ہذا کے طلباء و دیگر اشخاص ہمہ وقت ان سے اپنے دنیوی و اخروی معاملات کے تئین استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔ جامعہ ہذا میں حضرت ایک شیخ الحدیث کی حیثیت سے فن حدیث اور علوم حدیث کی تدریسی خدمات انجام دے کر طلباء کی تشنگی بجھانے کے ساتھ ساتھ جامعہ ہذا کے داخلی امور پر بھی اپنا کافی وقت صرف کرتے ہیں ۔جامعہ ہذا کے شعبہ افتا "دارالافتاء العارفیہ " کی سرگرمیوں میں بھی  حضرت کا  کافی  عمل دخل ہے ۔
            
            آج حضرت جب راقم کے کلاس میں علوم حدیث کی  مشہور و معروف کتاب  " تدریب الراوی " کا درس دے کر فارغ ہوئے تو نصیحتا فرمایا کہ آج اخلاقیات ( Moraliteis  ) پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آپ کا بچہ اگر انٹرول میں ایک پراٹھا کھاتا ہے تو آپ اس کے ٹفن باکس میں دو پراٹھے رکھئے اور  واپس آنے کے بعد اس سے دریافت کیجئے کہ اس نے اپنا  ناشتہ کسی سے شئیر کیا یا نہیں؟  ۔ اپنے بچوں کو پہلے ہم خود سلام کریں پہر اسے نصیحتا کہیں کہ بیٹا اپنے اساتذہ ،ساتھیوں اور دیگر لوگوں کو سلام کیا کرو ۔انہوں نے مزید فرمایا کہ جب ہم سے کوئی کسی سے  ناراض ہوتا ہے یا ہماری زبان یا ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہم صرف اس شخص سے معذرت طلب کر لیتے ہیں ، اگر صرف اتنا ہی ہے تو پھر یہ ایک نازیبا عمل ہے ہمیں اس کے بجائے اس آدمی کا دل جیتنا چاہئے ۔ اگر وہ ہمارے اساتذہ یا دیگر اکابر میں سے ہوں تو ہمیں ان کی خدمت کر کے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر وہ شخص ہمارے ساتھیوں میں سے ہو تو اس کی مدد کرکے، اسے ناشتہ وغیرہ پر دعوت دے کر اسے جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے.

            آج عجیب سا ماحول ہو گیا ہے، جب کوئی شخص کسی کو تکلیف پہونچاتا ہے یا انجانے میں کسی سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی  تلافی کے لیے ہم صرف معذرت  (sorry  ) طلب کرتے ہیں ایسے صورت میں ہمیں اپنے بچوں کو بھی مذکورہ صورت کے ذریعے اس کا دل جیتنے کی ترغیب دینی چاہیے ۔ آج پھر سے دنیا میں انسانیت کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ فسطائی طاقتیں آج اپنے بہکتوں کے سہارے انسانیت کی نسل کشی میں پوری توانائی صرف کر رہے ہیں اس لئے آج ہم میں سے ہر کسی انسانیت اور اخلاقیات کی بقا کے لئے کوشاں ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ حضرت نے اور بھی قیمتی باتیں بتایئں جو آب زر سے لکھے جانے اور زندگی کے ہر موڑ کے لیے مشعل راہ بنانے کے لائق ہیں ۔
از:- احمد اللہ سعیدی  (محمد احمد رضا ) متعلم جامعہ عارفیہ آلہ آباد

My self

I am Ahmad Raza 

-: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :-

 -: दज्जाल विरोधी प्रदर्शन की लहर :- इज़राइली नौसेना की ओर से ग़ज़ा के लिए रवाना होने वाले "असतूल अल-समूद" को रोकने और उसकी कई नौक...